مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ ایک نشست – حسنین نازش

مجھے انہیں اپنا پہلا سفرنامہ بعنوان ”قاردش – سفرنامہ ترکیہ‘‘ ارسال کیے ہوئے محض تین دن گزرے تھے کہ صبح دس بجے میرے موبائل پر ان کی کال وصول ہوئی۔ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات میں میری آواز ڈبڈباتی رہی۔ حیرت اس لیے کہ مجھے انہیں کتاب بھیجے ہوئے وقت ہی کتنا گزرا تھا اور وہ اس سفرنامے کے کرداروں، گریزوں، موڑوں اور بنت کے حوالے سے مجھ سے استفسار کر رہے تھے۔ اس سفر نامے کے کچھ ابواب اور عنوانات کے حوالے سے انہوں نے ایک طرف تو میری خوب کمر ٹھونکی اور ساتھ ہی بعض مواقع پر مجھے سفرنامے کی موشگافیوں سے روشناس کرواتے ہوئے چند ایک مقامات پر اصلاح بھی دی۔

ایک تاریخی شخصیت کی زندگی کا احوال کسی خاص انداز میں بیان کرنے پر اس کردار کے دوسرے اور تیسرے رُخ کے بیان کی تشنگی کا بھی گلہ کیا۔ یوں بات طویل ہوتی گئی اور میں کسی طفلِ مکتب کی مانند ان کا ایک ایک حرف اپنی گرہ سے باندھتا رہا۔ خوشی اس بات کی تھی کہ دو دنوں میں ہی انہوں نے غالباََ تمام کا تمام سفرنامہ ہی پڑھ ڈالا تھا۔ اس سفرنامے کو انہوں نے اس قابل سمجھا کہ اس کے لکھاری کو فون کر کے داد بھی دی جائے، اصلاح بھی ہونی چاہیے اور آئندہ کے لیے ایک نو جوان سفر نامہ نگار کی واضح سمت کا تعین بھی کر دیا۔ یوں یہ دس منٹ طویل فون کال میرے لیے کسی بڑے ایوارڈ اور سند سے کم نہ تھی۔ ایک افسانہ نگار کو جو محض ترکی عازمِ سفر ہوا تھا اس نے اپنی سفری مشاہدے زیبِ قرطاس کرتے ہوئے سفرنامہ تراش ڈالا تھا مگر اس ایک فون کال نے افسانہ نگار میں ایسی روح پھونک دی تھی کہ وہ افسانے کے ساتھ ساتھ سفرنامے کا سفر بھی کرنے لگا۔ اہلِ نقد و نظر اس کے سفرناموں میں افسانوں کا رنگ ڈھونڈنے لگے۔ یہ فون مجھے اُردو ادب کے سب سے معتبر سفرنامہ نگارمستنصر حسین تارڑ نے کیا تھا۔
ٹیلی فون پر اس گفتگو کے بعد فون اور پیغامات کا سلسلہ چلتا رہا تاہم کبھی ملاقات کی صورت نہ نکلی۔ نہ تو سرمحفل اور نہ ہی کبھی آمنے سامنے۔
مجھے ان سے ملنے کا بے حد اشتیاق رہا۔ میں ان سے کسی بڑی ادبی بیٹھک یا میلے میں نہیں ملنا چاہتاتھا جہاں وہ اپنے درجنوں مداحوں کے درمیان گھرے ہوئے ہوں۔ ملاقات جہاں محض ایک آٹوگراف یا سیلفی کی حد تک محدود رہ جائے۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ مستنصر بہت اکھڑ مزاج ہیں۔ ان کی طبیعت میں مجلسی پن نہیں ہے۔ وہ روکھی شخصیت کے حامل ہیں۔ کسی تقریب، میلے ٹھیلے اور مجلس میں نہیں جاتے۔ مداحوں، نام نہاد لکھاریوں، شاعروں اور نقادوں سے دور بھاگتے ہیں۔ مزاج میں تیکھا پن کچھ کرختگی کے ساتھ در آیا ہے۔ یہ سب باتیں ان کے متعلق ہمارے اہل قلم دوستوں نے مشہور کر رکھی تھیں۔ اس لیے میں نے صرف دو تین بار ان سے ملنے کا عندیہ دیا تو ایک دفعہ وہ امریکہ اپنے بیٹے کے ہاں گئے ہوئے تھے اور ایک دفعہ کسی دوسری مصروفیت کے سبب وہ مجھ سے نہ ملے۔ میں نے یہی جانا کہ وہ اپنی ذات کے دائرے میں اس قدر محو گردش ہیں کہ انہیں اپنی گردش کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
لیکن آج لاہور جاتے ہوئے میں نے انہیں فون کیا۔
ویسی ہی کھنکتی ہوئی مگر کھانستی ہوئی آواز…
میں نے اپنی لاہور آمد اور ان سے بالمشافہ پہلی بار ملنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے اولاً تو اپنی مصرفیات اور پھر اپنی خرابیِ صحت کا تذکرہ کیا مگر میرے اشتیاق کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے مجھے ماڈل ٹاؤن کے مرکزی پارک میں علی الصبح ملنے کا وعدہ کیا۔
میں تڑکے ہی اٹھ بیٹھا اور تیار ہو کر ماڈل ٹاؤن کے اس مرکزی پارک کی طرف ہو لیا۔ ابھی سورج کی ننھی ننھی کرنیں پورب سے نمودار ہو رہی تھیں۔ پارک کی مرکزی مصنوعی جھیل دھند میں لپٹی تھی اور خنکی اپنے پر پھیلائے ہوئے تھی۔ میں ایک روش پر چلتا رہا اور اس روش کے آخر میں وہی صورت نظر آئی جو ہمارے بچپن کی یادوں کا ایک سنہری باب تھا۔ ناشتہ کر کے ہم سبھی بہن بھائی اپنے اپنے کندھوں پر بھاری بھرکم بستے رکھے چاچا جی کا پروگرام دیکھا کرتے تھے۔ ٹون ۔۔۔ٹون ٹون کارٹون کی صدائیں سن کر خوش ہوتے۔۔۔ اور پھر کارٹون دیکھ کے فوراََ گھر سے بھاگ نکلتے تھے۔ یہی کارٹون ہماری اولین تفریح تھی، چاچا جی سے محبت بھی جنہوں نے پاکستان میں صبح کی نشریات کا آغاز کیا تھا۔ وہی چاچا جی اس وقت میرے سامنے تھے۔ آج کے چاچا جی اور میرے بچپن کے چاچا جی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ آج کے چاچا جی کی آنکھوں میں ویسی جوانی نہ تھی۔ چہرے پر جھریوں کا راج تھا۔ سر کے وہ بنے ہوئے خوبصورت بال اب ایک اون کی موٹی ٹوپی کے نیچے کہیں دبے ہوئے تھے۔ ہاتھوں کو چھوا تو ان میں جوانی کی گرم جوشی کہیں دُور رہ گئی تھی۔ ہاتھ بھی جھریوں کے جمگھٹے بن چکے تھے۔

ان سب کے باوجود کمر میں کوئی خم نہ تھا۔ قدم ایک دوسرے کے ساتھ باہم مل مل کر اٹھ رہے تھے۔ نگاہ میں وہی بلندی اور پرواز تھی اور حافظہ کمال کا تھا۔ نظر گویا اب بھی افلاک پر ہی تھی۔ موسم تو سرد تھا ہی مگر دو دو جیکٹیں چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ سردی کی سخت لپیٹ میں ہیں۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ نمونیہ کا تازہ حملہ ہوا ہے۔ اب اس عمر میں قوتِ مدافعت بھی تو ایک حد تک ہی کام آ سکتی ہے اس لیے معمولی درجے کا حملہ بھی بے حد تکلیف دہ تھا۔
سلسلہ کلا م ”نکلے تیری تلاش میں‘‘ سے شروع ہوا ۔ دو تین منٹ بعد مستنصر پارک میں بچھی ہوئی کرسی سے معذرت کر کے کھانستے کھانستے اُٹھے۔ تھوڑی دور جا کر بلغم تھوکا، سانس کی بے ترتیبی بحال کی اور پلٹ کر پھر سے میرے پہلو میں بچھی اپنی نشست پر آن بیٹھے۔ دو تین منٹ بات چیت کا سلسلہ پھر چلا اور پھر وہ معذرت کر کے کھانسنے اور بلغم تھوکنے چلے گئے اور واپس پلٹے۔ پھر پانی کے دو تین گھونٹ پیے ، سانس بحال کیا۔ دھند میں لپٹی صبح میں کچھ دیر کے لیے سکوت آگیا۔
انہوں نے خود ہی سکوت توڑا اور بولے:
” میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ آپ بات کریں۔‘‘

”آپ کی نظر میں آپ کی سب سے عمدہ تحریرکون سی ہے؟۔۔۔ ”نکلے تیری تلاش میں‘‘ ہے ناں۔۔۔؟
” نہیں۔۔۔ میری ہر ہر تخلیق شان دار ہے۔‘‘
ان کی آنکھوں کی چمک مہمیز ہو گئی جن کے سامنے اندلس میں اجنبی دیوانہ وار بھاگتا چلا گیا، ہنزہ کی داستانیں سمٹنے لگیں، سنو لیک کی برفانیاں اُمڈ آئیں، دیو سائی کی بلندیاں جھگ سی گئیں، دیس پردیس ہوتے گئے، شمشال بے مثال ہوگیا، ماسکو کی راتیں سفید ہوگئیں، پیار کا پہلا شہر آباد ہوتا چلا گیا، پیکنگ کی پُتلی محو رقصاں ہو گئی۔کالاش کی کافر رانیاں جلوہ گر ہوکر چترال کی داستانیں سنانے لگیں، شاید مستنصر کو بھی قربتِ مرگ میں محبت ہو گئی تھی۔
”کوئی تو ایک ہو گی جو بہت زیادہ عزیز ہو، بے حد پسند ہو۔۔۔‘‘
”میں کدی کوجا بچہ نئیں جمیا۔۔۔‘‘
ان کی آنکھوں کی چمک مزید تیز تر ہوتی چلی گئی۔ ایک ایسا فنکار جس نے اپنے فن کو چاہا، پیار کیا، اس سے عشق کیا اور کیا کہنے اس سوہنی ذات کے کہ جس نے فنکار کے فن پاروں میں ہی اس کے لیے رزق کا سامان پیدا کر دیا۔
”پھر بھی۔۔۔‘‘ میں نے ضد کر ڈالی۔
”سفر شمال کے، یاک سرائے، سنو لیک اور بہاؤ وغیرہ میں محنت بھی زیادہ تھی۔ فیر وی میں کہواں گا کہ ماں کدی کوجا بچہ نئین جمدی۔۔۔‘‘
ان کا جواب مدلل اور مستقل رہا۔
ان کی طبیعت پھر مضمحل ہونے لگی۔ وہ پھر سے معذرت کر کے کھانستے کھانستے اٹھے۔ تھوڑی دور جا کر بلغم تھوکا، سانس کی بے ترتیبی بحال کی اور پلٹ کر اپنی نشست پر آن بیٹھے۔
”اے ہُن ایویں ای چلدا رے گا۔ میں صرف تہاڈی خاطر اَج آیاں آں۔ اَج میں نئیں سی آنا۔ میری طبیعت ٹھیک نئیں اے۔‘‘
مجھے پہلی بار ان کی طبیعت کی ابتری کا اس قدر شدت سے احساس ہوا۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کا جسم اور قوتیں ساتھ چھوڑتی جاتیں ہیں۔ جوانی اور تندرستی کو دوام حاصل نہیں۔ مجھے اپنے بچپن کے چچا بے چارے لگے۔
”میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے اس حالت میں۔۔۔‘‘
”کوئی گل نئیں یار۔۔۔ تُسی وی تے اِنے دوروں آئے او۔۔۔‘‘ انہوں نے کھانستے ہوئے کہا۔
”سفر نامے کا کیا مستقبل ہے؟‘‘
ہر چیز کو زوال ہے۔ کچھ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا۔۔۔ لوگ کہتے تھے کہ پاکستان تا قیامت ایسے ہی قائم رہے گا۔ پچیس سال بعد ہی دیکھو آدھا رہ گیا۔۔۔۔ بس رہے نام اللہ۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی دائیں انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھائی۔
”نئے لکھاری اور خصوصاََ سفرنامہ نگار کیسا لکھ رہے ہیں؟‘‘
”سب اچھا لکھ رہے ہیں۔ اچھا کام ہو رہا ہے۔‘‘

یوں یہ مکالمہ طویل ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی سفرناموں کے کرداروں، پلاٹوں اور دیگر معلومات اور جدید سفر ناموں کی ضرورت کا تقابلی جائزہ بھی لیا۔ باتیں سفر ناموں کی، ادب کی، سیاست کی، سماج کی، مذہب کی اور تعلیم کی ہوتی رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کھانسی کے دورے بھی پڑتے رہے اور ان کی نشست خالی بھی ہوتی رہی اور پھر سے پُر بھی ہوتی رہی۔ سانسیں بھی بے ترتیب اور پھر سے ہموار ہوتی رہیں۔
میں ان اہل قلم کے رویوں پر دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا کہ کیسے شفیق انسان کے لیے ان لوگوں نے جانے کس کس طرح کی باتیں گڑ ی ہوئی ہیں۔ مستنصر تو وسعت قلبی لیے ہوئے۔ وہ مشفق بھی ہیں اور مکرم بھی۔ انہیں ماننا بھی آتا ہے اور منوانا بھی آتا ہے۔ وہ حوصلہ مند بھی ہیں اور حوصلہ دینا بھی جانتے ہیں۔
میں نے رخصت چاہی تو قدرے حیرانی سے پوچھا:
”تُسی جا رے او۔۔۔‘‘
”ہاں جی! ہُن جانا ای اے۔۔۔‘‘
”تُسی ٹھیک کہہ رے او ساریاں نے جانا ای اے۔۔۔‘‘
کھانسی کا ایک شدید دورا پھر پڑا، بلغم سے سینہ کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دینے لگی۔
مستنصر کو نہ چاہتے ہوئے بھی نشست چھوڑنا پڑی۔