حسنین نازشؔ کا سفر نامہ، ”امریکا میرے آگے‘‘ – ڈاکٹر صبا جاوید

”میں اگر اس قابل ہو گیا کہ تم لوگوں کو اپنے ہاں بلا سکوں، خواہ وہ چند ایام کے لیے ہی کیوں نہ ہو تو ضرور بلاؤں گا…‘‘
یہ تھے وہ الفاظ جو ایئر پورٹ پر امریکا کی پرواز کے لیے منتظر اش کبار آنکھیں لیے سلیم نے اپنے ارد گرد کھڑے چار دوستوں سے کہے جن میں سے ایک حسنین نازشؔ بھی تھے اور پھر پورے آٹھ برس بعد سلیم نے حسنین نازشؔ، ارشد مصطفٰی اور عبدالقہار کو گرمی کی چھٹیوں میں مع ٹکٹ امریکا اپنے ہاں بلوا بھیجا.
اسے کہتے ہیں خلوص اور جذبہ محبت جس نے ان چار دوستوں کو امریکا کی سیر کرائی اور اس سیر نے سفر نامے کا روپ اختیار کیا اور پھر اک شاندار رونمائی کی تقریب کی صورت اہلِ شہر کو اپنی جانب کھینچا. میرے سامنے حسنین نازشؔ کا سفرنامہ ”امریکا میرے آگے‘‘ موجود ھے. سفرنامہ ہے یا تاریخ کا سفر، یہ کسی عام سیاح یا ادیب کا سفر نامہ نہیں بلکہ ایک اکیلے شخص کا سفر نامہ ھے جو اپنے سفر کی مماثلت کولمبس کے سفر میں تلاش کر تا ہے. لیکن ہمیں جو مماثلت دیکھنے کو ملتی ھے وہ بس یہ کہ کولمبس کے سفر خرچ کا ذمہ ملکہ ازابیلا نے اٹھایا تھا جب کہ حسنین نازشؔ کا سفر خرچ ان کے دوست سلیم کے ذمہ تھا اور واپسی پر انہیں کسی گورنری کی پیش کش کا وعدہ بھی نہ تھا.
حسنین نازشؔ نےاس سفر نامے میں امریکی ویزہ کے حصول کے لیے بڑے کار آمد گُر بھی بتائے ہیں مثلاً اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ امریکا کیوں جارھے ھیں تو کہیے دس روزہ سمر کیمپ کے لیے جارہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ دسویں روز ہی لوٹ آئیں. اگر سوال ہو کہ وہاں اگر آپ کی ملین ڈالر کی لا ٹری نکل آئے تو کیا کریں گے، جواب دیں سارے پیسے امی ابو کو دے دیں گے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایف سیکٹر میں کوئی بنگلہ لے لیں…
حسنین نازشؔ ایک نقاد کی حیثیت سے امریکی ویزہ آفس کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں:
”ہم عجیب قوم ہیں، ایک طرف ہر گلی محلے، کالج یونیورسٹی، شاہراہوں پر امریکا بہادر کو بے نقط سناتے ہیں اور حال یہ ہے کہ ہر روز سیکڑوں پاکستانی اسی ملک کے ویزہ کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو تے ہیں اور اس کے حصول پر ایک دوسرے کو مبارک باد یں بھی دیتے ہیں.‘‘
حسنین نازشؔ کی طبیعت کا منچلا پن مجسمہ آذادی کے سامنے تصویر کھنچواتے ہوئے خوب نما یاں ہو کر سامنے آتا ہے جب وہ مجسمہ آذادی کی صورت ایک ہاتھ کو مشعل کی طرح فضا میں بلند کرتے ہوئے دوسرے ہاتھ میں لوح کی جگہ اپنی ڈائری پکڑ کر پوز بناتے ہیں اور ان کا یہ پوز وہاں کھڑے سیاحوں میں بے حد مقبول ہو جاتا ہے اور ان کی ڈائری کافی دیر تک ہاتھوں ہاتھ منتقل ہوتی رہتی ھے.
حسنین نازشؔ کیپیٹل ہل میں ایک مورخ کی صورت اُبھرتے ہیں، خصوصاً جب وہ امریکا کے پہلے صدر جاج واشنگٹن کےمجسمہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی زندگی کے اوراق پلٹتے ھیں. جارج واشنگٹن جسے 20 برس کی عمر میں ایک بہت بڑی جاگیر ورثہ میں ملتی ھے، 1753ء تا 1758ء کا عرصہ وہ فوج میں گزارتا ہے، اس کی شادی ہوئی لیکن اولاد سے محروم رہا، لیکن اپنی اعلٰی عسکری اور انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر اور پختہ کردار کی بدولت اسے براعظمی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا جاتا ھے اور نہ صرف یہ بلکہ وہ امریکا کا پہلا صدر بھی بن جاتاھے. امریکی تاریخ کا یہ پہلو اس تفصیل سے ہمارے سامنے پہلی بار آیا جو یقیناً قابل تعریف ہے. ہم نے امریکا کا یہ روپ کب دیکھا کب جانا.
سفر نامہ نگار وائیٹ ھاؤس کی فضاوں میں آسیبی سائے بھی دیکھتا ھے جنہیں سر ونسٹن چر چل اور نیدر لینڈز کی ملکہ نے ابراہم لنکن کی صورت دیکھا. وہ ھمیں وائیٹ ھاؤس کی خفیہ سرنگوں کا پتہ بھی دیتا ھے لیکن ان سے کوئی نکلتا دکھائی نہیں دیا. اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ حسنین نازشؔ ایک انسان بھی ھے. ان کےسفر نامے میں بحراوقیانوس کے ساحل پر جو مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، وہ مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں میں بہت عام ہیں لیکن حسنین نازشؔ کے سفر نامہ ”دیوار چین کے سائے تلے‘‘ میں عنقا ہیں. لیکن امریکا میں بحر اوقیانوس کی ساحلی ہواؤں نے انہیں جو بے باکیت سونپی بے، وہ ان کا ایک نیا روپ قاری کے َسامنے لے کر آتی ہے. اس سب کچھ کہ باوجود کہ وہ اپنے قدم پارک میوزیم ریسٹورنٹ، قدیم عمارات تک محدود رکھتے ہیں، بحرِ اوقیانوس کی ہواؤں ان پر اپنا اثر ڈاتی نظر آتی ہیں. سفرنامہ نگار یہان‌نہ تو مورخ نظر آتا ہے نہ محقق، نہ ادیب نہ سیاح، وہ ایک عام انسان کی صورت نشیلی آنکھوں میں کسی شاعر کی طرح پورا جہاں دیکھتا نظر آتا ہے، گلابی گھنگھریالی ذلفوں کو پھن پھیلائے دیکھنے میں گم نظر آتا ہے. وہ کسی کی سُبک رفتاری پر ہرن کو فریفتہ دیکھتا ہے. قاری یہاں‌ ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک مدرس، ایک مورخ، ایک محقق اور ایک سیاح چشم زدن میں کہاں گم ہو گیا. یہاں پہنچ کر حسنین نازشؔ کی تلاش ”امریکا میرے آگے‘‘ قارئین کی ذمہ ہے، جو اس سفرنامہ نگار کو کہاں پاتے ہیں. کسی میوزیم، کسی پارک یا وائٹ ہاؤس کی خفیہ سرنگوں میں یا وہ صرف نشیلی آنکھوں اور گھنگھریالی ذلفوں کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے.

نوٹ: یہ مضمون ”سخن ساز‘‘ ادبی فورم کے زیرِ اہتمام، ”امریکا میرے آگے‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں پڑھا گیا.

اپنا تبصرہ بھیجیں