خواجہ حسن نظامی کی کتاب ”دماغی و قلمی نمونہ جنگِ صفین‘‘

”دماغی و قلمی نمونہ جنگِ صفین‘‘ خواجہ حسن نظامی کی ایک کتاب کا نام ہے جس میں انہوں نے مولانا محمد علی جوہر سے اپنی قلمی جنگ کا مکمل تذکرہ درج کیا ہے اور اس سلسلے میں تحریر کیے گئے مضامین اور دوسرے اشخاص کے متعلقہ خطوط بھی یک جا کر دیے ہیں۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ 17 نومبر 1926ء کو مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ”ہمدرد‘‘ کے ذریعہ اس قلمی جنگ کا آغاز کیا۔ آپ نے کسی خط کو دیکھ کر غلط فہمی میں خواجہ حسن نظامی پر انگریزوں کی جاسوسی اور مخبری کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں نظامی صاحب نے اپنے فعل کی صفائی پیش کی اور اپنی دانست میں مولانا محمد علی جوہر کے خلاف سلسلہ وار مضامین مفصل قلم بند کیے۔ 24 دسمبر 1926ء کو اس قلمی معرکے کا اختتام ہوا اور اپریل 1927ء میں کارکن حلقہ مشائخ دہلی سے ”دماغی و قلمی نمونہ جنگِ صفین‘‘ شائع ہوکر خاصی مقبول ہوئی۔


خواجہ حسن نظامی سلسلۂ چشتیہ کے صوفی اور اُردو زبان کے ادیب تھے۔ آپ کے مضامین مخزن میں چھپتے رہے۔ آپ کے بزرگ شروع سے ہی تصوف کے راستے پر چلتے رہے چنانچہ خواجہ صاحب کی پرورش اور تربیت بھی اسی مذہبی اور صوفیانہ ماحول میں ہوئی۔ خواجہ حسن نظامی نے کبھی کسی درس گاہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی. اپنے طور پر پڑھتے رہے اور عربی، فارسی اور اُردو میں خاصی دسترس حاصل کر لی۔ ابتدائی زندگی تنگ دستی میں گزار دی۔ پھر کتابیں بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔ کتابوں کی گھٹری اٹھا کرپرانی دہلی سے نئی دہلی پیدل جاتے تھے۔ اسی طرح گزراوقات ہونے لگی۔ فرصت کے اوقات لکھنے لکھانے کا کام کرتے۔ رفتہ رفتہ ان کے مضامین رسالوں اور اخباروں میں چھپنے لگے۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ”رعیت‘‘ سے ہوا۔ اخبار ”منادی‘‘ میں ان کا روزنامچہ شائع ہوتا رہا۔ آپ نے خود میرٹھ سے ایک اخبار ”توحید‘‘ بھی نکالا.
خواجہ صاحب اچھے اور منفرد انشا پرداز کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی تھے اور بے باک مقرر اور خطیب بھی۔ پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بے شمار لوگ حلقہ مریدی میں داخل ہوئے۔
خواجہ حسن نظامی کی تصانیف چالیس کے لگ بھگ ہیں جن میں سیپارہ دل، بیگمات کے آنسو، غدر دلی کے افسانے، مجموعہ مضامین حسن نظامی، طمانچہ بر رخسار یزید، سفر نامہ ہندوستان اور کرشن کتھا مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب کی تصانیف کی تعداد چالیس ہے جب کہ ایک تحقیق کے مطابق یہ تعداد تین سو کے لگ بھگ ہے۔ خواجہ صاحب بہت زودگو انسان تھے. ایک مقام پر آپ نے خود کہا ہے کہ مہینے میں ایک کتاب تو ہوجاتی ہے۔ آپ نے 31 جولائی، 1955ء کو دہلی میں وفات پائی اور بارگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے احاطے میں دفن ہوئے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ”شمس العلماء‘‘ کا خطاب ملا.


مولانا محمد علی جوہر بھی ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم رہنما، ادیب اور صحافی تھے. آپ 10 دسمبر، 1878ء کو ریاست رام پور میں پیدا ہوئے۔ دو سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ مذہبی خصوصیات کا مرقع تھیں اس لیے بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی سے گہرا شغف تھا۔ ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلٰی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کا امتحان اس شاندار کامیابی سے پاس کیا کہ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا اور کلکتہ جا کر انگریزی اخبار ”کامریڈ‘‘ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی ”کامریڈ‘‘ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔
انگریزی زبان پر عبور کے علاوہ مولانا کی اُردو دانی بھی مسلم تھی۔ انھوں نے ایک اُردو روزنامہ ”ہمدرد‘‘ بھی جاری کیا جو بے باکی اور بے خوفی کے ساتھ اظہار خیال کا کامیاب نمونہ تھا۔ جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینے کے جرم میں مولانا کی زندگی کا کافی حصہ قید و بند میں بسر ہوا۔ مولانا محمد علی جوہر تحریکِ عدمِ تعاون کی پاداش میں کئی سال جیل میں رہے۔ 1919ء کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے۔ جامعہ ملیہ دہلی آپ ہی کی کوششوں سے قائم ہوا۔ آپ جنوری 1931ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان گئے۔ وہاں مولانا محمد علی جوہر نے آزادیء وطن کا مطالبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہ کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا اور تمہیں میری قبر بھی یہیں بنانا ہوگی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد (4 جنوری، 1931ء کو) آپ نے 53 سال کی عمر میں لندن میں انتقال فرمایا۔ تدفین کی غرض سے آپ کی نعش بیت المقدس لے جائی گئی۔ مولانا کو اُردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جو مجاہدانہ رنگ سے بھرپور ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں