”چڑھتے سورج کے دیس میں‘‘ – سمیرا انجم

”چڑھتے سورج کے دیس میں‘‘ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا سفرنامہ جاپان ہے جو انھوں نے مارچ 1996ء میں کیا. ڈاکٹر صاحب کو اپنے ایک دفتری کورس کے سلسلے میں جاپان یاترا کا موقع ملا تو وہاں کے اپنے تجربات مشاہدات کو نہایت سادہ اور دلچسپ انداز میں سفرنامہ کی صورت، بیان کیا ہے. تقریباََ 100 صفحات کا یہ سفرنامہ بلا شبہ جاپان کے بارے میں قاری کو سہل انداز میں جاپان کی مختلف روایات سے بھی روشناس کرواتا ہے اور وہاں کی ترقی کے کچھ رازوں سے بھی آگاہ کرتا ہے. تقریباََ 20 سال پہلے بھی شاید وہی کچھ فرق تھا جاپان اور پاکستان کی ترقی میں جو آج ہے۔ مصنف چوں کہ محکمہ کسٹم میں ہونے کی وجہ سے وہاں موجود تھے، لیکن ساتھ ہی وہاں اپنی ڈاکٹری کی بھی دھاک بٹھا دی. اپنے کورس میٹس کے ساتھ ساتھ کچھ جاپانی گڑیوں گڈوں پر بھی۔

سفرنامے میں تصاویر بھی شامل ہیں جن میں مصنف کی آتش جوانی کی جھلک ہے. ساتھ ہی ساتھ مصنف ایک بیبے انسان ہیں جو کسی خدا کو نہ ماننے والی دھرتی پر بھی قادر مطلق کی یاد سے بالکل غافل نہ رہے اور ذاتی طور پر مجھے اس بات نے کافی اچھا سا تاثر دیا. اللہ نے بے شک ان کو اسی وجہ سے آج اتنا مقام و عزت عطا فرمائی کہ وہ اپنے اللہ کے ساتھ ہر حال میں جڑے رہے اور خدمت خلق کا جو جذبہ آج ڈاکٹر صاحب (کہ ان کے ابھی کے کچھ سفر نامے پڑھ چکی ہوں) کا مشاہدے میں آتا تو یہ سب اس کا فیضان ہے۔ خیر جاپان کے اس سفرنامے میں مصنف کہیں بھی ایسے نہیں کہتے نظر آئے کہ پاکستان میں سب ہی کچھ برا ہے بلکہ ایک پُر امید پاکستانی، وطن کو ترقی کرتے دیکھنے کی خواہش سے انہوں نے جاپان کے نظام کو دیکھا اور پرکھا۔ سفر نامے کے آخر میں مختصر طور پر ایک جائزہ کی طرح کچھ پوائنٹس کو ڈسکس بھی کیا گیا ہے، جیسے:
٭ وقت کی پابندی اور ڈسپلن
٭ جاپانی کیوں سمارٹ ہیں
٭جاپانیوں کا اخلاق
٭جاپان میں نماز
اور پھر آخر میں جاپانی زبان کے، روز مرہ بول چال کے کچھ الفاظ بھی شامل کیے کہ اس خوب صورت زبان سے تھوڑی شد بد ہو سکے یا کسی سے جاپانی میں گفتگو کرنا ہو تو مدد ملے.
مختصراََ یہ سفرنامہ ایک طرح سے دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش ہے، جو کہ واقعی قابل ستائش ہے۔