میں خود اپنے فہم و شعور پر ابھی کھل رہی ہوں پرت پرت
کہ عجب طلسمِ خیال ہوں، نہ عیاں ہوں میں، نہ نہاں ہوں میں
مجموعہ کلام ”العطش‘‘ کی خالق اور کراچی میں مقیم شاعرہ انجم عثمان صاحبہ کو وقت کی بڑی شاعرہ کہہ کر مخاطب کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، کیوں کہ انہوں نے شعر نہیں کہے بلکہ صفحہ قرطاس پر موتی پرو دیے ہیں. ان کی شاعری پڑھ کر احساس ہوتا ہے جیسے کوئی ہم سے میٹھی میٹھی اور پیاری پیاری باتیں کر رہا ہے. بلا شبہ انجم عثمان صاحبہ حسیات کی عظیم شاعرہ ہیں اور ان کے یہ جوہر ان کے مجموعہ کلام ”العطش‘‘ میں پوری طرح کھل کر سامنے آئے ہیں ۔
”ہمارے درمیان ممتاز شاعرات کی صف میں ایک نئی آواز شامل ہو گئی ہے جو نہ صرف یہ کہ کلاسیکی روایت کے سبھی ادب آداب سے سے بھی بخوبی آگاہ ہے بلکہ ان کی شاعری کی مجموعی فضا جدید حسیت سے آگاہی کا پتہ دیتی ہے.‘‘ (افتخار عارف)
انجم عثمان کی شاعری میں خدائے لم یزل سے سچی مودت بھی جھلکتی نظر آتی ہے، جس کا ادراک ان کی حمدیہ شاعری کو پڑھ کر ہوتا ہے کہ کس قدر عشقِ الہی ان کے قلب میں موجزن ہے :
ہے جلوہ گاہِ یزداں بزمِ افلاک دروں! چہ شک
کہ رخشندہ ہے اسمِ ذاتِ باری سے بنوں! چہ شک
اس کے علاوہ مودتِ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے:
قبول بارگاہِ احمدِ مرسل ہو جائے
عطا مجھ کو وہی طرزِ ادا ہو یا رسول اللہ
اس کے علاوہ انہوں نے اہلِ بیت سے اپنی الفت اور محبت کا برملا اظہار بھی بہت خوب صورت الفاظ میں کیا ہے:
حق سر بلند آج بھی ان کے طفیل ہے
باطل کی ہر شکست کا عنواں حسین ہے
اس کے سوا انہوں نے اپنی شاعری میں فضول خواہشات کو ترک کرنے کا درس بھی دیا ہے جن کی وجہ سے بہک کر انسان صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے اور حقیقی مسرتوں کا حظ بھی نہیں لوٹ پاتا:
دہر میں اور بھی بہت کچھ ہے
شوق بن کیا بسر نہیں ہوتی
اور اس طرح انہوں نے اپنے اس مجموعہ کلام میں عشق کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار اشعار کی صورت میں کیا ہے اور بہت زبردست انداز میں کیا ہے:
دیارِ عشق کے سارے فسوں میرے لیے
خرد ہے اس کیلئے اور جنوں میرے لیے
آپ نے آسمانی آفات کا ذکر بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے:
ہو رہا ہے آسمانوں سے بلاؤں کا نزول
آپ سے کس نے کہا فصلِ بہار آنے کو ہے
انجم عثمان صاحبہ پر عائشہ عابد نے، جو فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی کی طالبہ رہی ہیں، ”انجم عثمان کے شعری مجموعہ العطش کا حسیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان پر مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔
”انجم محبت کو جو مفلس کے جنازے کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکلنے پر مجبور کر دی گئی ہے، اُسے سماج میں اعلٰی مقام عطا کرتی ہے اور محبت کے وقار کو مذہب بنا دیتی ہے.‘‘ (عالیہ امام)
”انجم عثمان کی شاعری میں رومانیت بھی ہے، شگفتگی بھی، محسوسات اور جذبات کی دھنک بھی ہے اور آلامِ روزگار کی کسک بھی، لیکن ہر جگہ ان کا فکری معیار قائم رہتا ہے، جاناں اور پیا جیسے الفاظ کی ان کے یہاں بھی کمی نہیں لیکن وہ زندگی اور کائنات کے بارے میں اپنے انداز سے سوچتی ہیں اور سوال اٹھاتی ہیں.‘‘ (سحر انصاری)
انجم عثمان صاحبہ ”اودھ پنچ‘‘ میں لکھنے والے مشہور مزاح نگار احمد جمال پاشا کی بھانجی ہیں. آپ تابش دہلوی، راغب مراد آبادی جیسے قد آور شعراء کرام اور ملکی و غیر ملکی دوسرے بڑے شعراء کرام کے ساتھ مشاعرے پڑھ چکی ہیں. علاوہ ازیں آپ سیپ، الفاظ، ارتقاء، دنیائے ادب اور دوسرے بڑے جرائد میں لکھتی رہی ہیں. آپ خود اپنی اس کتاب اور شاعری کی بابت کہتی ہیں کہ:
”میں نے زندگی کے تجربات، گہرے مشاہدے، معاشرے کے اچھے اور بُرے مختلف پہلوؤں، اپنی داخلی اور خارجی کیفیات، انسانی رویوں کی خوب صورتیوں اور بد صورتیوں، کائنات کی اپنے شعور کے مطابق تفہیم، وجودی، مکانی و زمانی جہات، ماورائے قیاس اور امکان ایک جہان دِگر، خدا اس کے وجود، اس کی لا محدودیت، اس کے اسرار اور ہنگامہ الست، کو جیسا اور جتنا سمجھا اور محسوس کیا، اسے الفاظ کی پوشاک میں ملبوس کر کے بلا کم و کاست اپنے قاری کے سامنے پیش کر دیا.‘‘
دو سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے اور اسے ”دنیائے ادب، ریگل چوک، کراچی‘‘ کے پتے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔