محترم کیفی بھائی سے ایک قلبی تعلق کو ایک عرصہ ہؤا۔ ان کے کالموں کو پڑھنا شروع کیا تو ان سے تعارف ہؤا۔ اس کے بعد ان کی تمام کتب کو بغور پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا موقع ملا۔ یہ نابغہء روزگار شخصیت حیدر آباد شہر میں متمکن ہے اور بجا طور پر اس شہر کا اور پھر پاکستان کا فخر ہے۔ کیفی بھائی سے ملاقات ایک ہی بار ہو سکی جب یہ خاص طور پر حیدرآباد سے کراچی ہمارے والد اسرارؔ ناروی مرحوم کے مجموعہ ء کلام، ”متاعِ قلب و نظر‘‘ کی تقریب رونمائی میں ہماری دعوت پر تشریف لائے۔ جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔۔۔ شفیق، ذہین، طباع، محبتی اور خوش اخلاق۔ جب تک کراچی میں رہے، یہ آسرا تھا کہ چند گھنٹوں کا فاصلہ طے کر کے جب چاہیں گے حیدرآباد پہنچ کر مل آئیں گے۔۔۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔۔۔ کارِ جہاں دراز ہو ہو کر دستیاب وقت پر قابض ہوتا رہا اور پھر ہم مزید دور یعنی لاھور منتقل ہو گئے۔ اب دیکھیئے کب ملاقات ہو پاتی ہے۔ مگر بھلا ہو مارک زکر برگ کا کہ جس نے فیس بک ایجاد کر کے وہاٹس ایپ بھی خرید لیا۔ پہلے خط و کتابت سے ملاقات کو آدھی ملاقات کا نام دیا جاتا تھا۔ فون کااستعمال عام ہؤا تو ملاقات آدھی سے ذرا زیادہ کے مرتبے پر آگئی۔۔۔ اور فیس بک اور وہاٹس ایپ نے تو ملاقات کو پوری سے زیادہ کا درجہ دے دیا ہے۔ اگر بالمشافہ ملاقات پوری ملاقات کہلاتی ہے تو وہ تو کبھی کبھی ہی ہو پاتی ہے۔ یہ مجازی ملاقات تو صبح آنکھ کھلتے ہی اور شب کو آنکھ بند ہونے تک جاری ہی رہتی ہے اور ایک سے نہیں کئی کئی سے یہ پہلےکب ممکن تھا۔ اب تو یہ احوال ہے،
؎ اب ہے ڈی پی پر لگی تصویرِ یار
جب ذرا ایف بی لگائی دیکھ لی
اس کے علاوہ وہاٹس ایپ سے جب چاہا سامنے بٹاکر براہ راست گفتگو کر لی۔ سو کیفی بھائی سے ان تمام ذرائع سے رابطہ ہے ۔ جب بھی پوری ملاقات ہوئی ادھوری ہی لگے گی۔
خیر صاحب کیفی بھائی سے ملاقات کی تفصیل سے تو آپ واقف ہو گئے اب آمدم بر سرِ مطلب والی بات ہو جائے۔ کیفی بھائی کا قلم ماشاءاللہ مسلسل رواں ہے اور ایک آدھ تصنیف ہمیشہ ان کے پاس غیر مطبوعہ موجود رہتی ہے۔ اس بار انہوں نے رابطہ کر کے ایک ایسی تصنیف مطالعے کو بھیجی جو ان کی نثری تخلیقات کے بجائے منظوم تخلیقات پر مشتمل ہے۔ اور نام رکھا ہے ”تک بندیاں‘‘۔ سو آج اس تصنیف پر خوش خوش قلم اٹھا رہا ہوں۔
خوشی اس بات کی ہوئی کہ کیفی بھائی نے کتاب کو اسم با مسمّیٰ رکھتے ہوئے اس میں ردیف، قافیہ، وزن اور بحر وغیرہ تلاش نہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ مزید یہ کہ سکّہ بند شعراء پر پابندی بھی لگا دی کہ اصلاح کی کوشش صرف ان کاوشوں میں کی جائے جہاں کچھ احتمال وزن، بحر اور ردیف و قافیہ کا رہ گیا ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہؤا کہ اب سکون سے ان مضامین پر بات کی جاسکتی ہے جن پر کیفی بھائی نے طبع آزمائی کی ہے۔ ورنہ حال تو یہ ہے کہ آپ نے کسی اچھا خیال رکھنے والے شعر کی تعریف کی نہیں کہ ماہرین عروض جن کو اس شعر میں کوئی سُقم نظر آرہا ہوتا ہے، فوراً نمودار ہو کر اعتراض داغتے ہیں کہ صاحب آپ نے تعریف کیوں کی، اس شعر میں تو مسئلہ ہے۔ ارے بھائی میں نے تعریف کی ہے اس خیال کی جو باوجود تمام مسائلِ شعری کے دل کو چھو گیا ۔ اب کوئی آئے اور کہے کہ آپ نے اس کتاب اور پیش کی گئی منظومات کی تعریف میں قلم کیوں اٹھایا، تو اس کتاب کے اولین چند صفحات کی کاپی سے ان کا منہہ بند کیا جاسکے گا
شکریہ راح۔۔۔ میرا مطلب ہے کیفی بھائی!
کیفی بھائی وضاحت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی کبھی شاعرانہ پابندیوں کی وجہ سے اچھوتے اور ضروری خیالات کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے یا قافیہ بندی کے چکر میں حقائق سے منہہ موڑنا پڑتا ہے۔ لہٰذا کیفی بھائی نے خیالات کے قتل پر اصولِ شاعری کو قربان کردینے کو فوقیت دی اور بہت اچھا کیا۔۔۔
آئیے دیکھیں کہ انہوں نے کیا گہر رولے ہیں۔ ابتداء ہی کچھ یوں کی ہے کہ زندگی اور موت کا فلسفہ آسانی سے بیان کردیا ہے:
رات کی تیرگی جب حد سے گزر جاتی ہے
ظلمتِ شب کے مٹانے کو سحر آتی ہے
گردشِ وقت سے ہوتا ہے غمِ جاں کا علاج
زندگی ہو جائے جو بے کیف تو موت آتی ہے
کیا خوب نکتہ ہے واقعی اگر زندگی متنوع نہ ہو تو بھلا موت کے سوا اور کیا ہے؟
کیفی بھائی کے یہاں تنبیہی مضامین بھی خوب ملتے ہیں، ایک قطعہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے آپ بھی دیکھیئے:
اذان ہونے لگی ہے نماز پڑھ لیجیے
کسے خبر کہ یہ موقع ملے ملے نہ ملے
ہمیشہ وقت پہ کرنا کہ جو بھی کرنا ہے
بھروسہ وقت کا کیا ہے رہے رہے نہ رہے
ایک بہت باریک سا نکتہ ہے جسے کیفی بھائی بہت رسان سے بیان کر گئے ایک شعر میں اور وہ ہے نشہء سخن۔ جب انسان کو اس کا احساس ہوتا ہے کہ نہ صرف اس کو کہنے کا ہنر آتا ہے بلکہ اس کی بات کا ابلاغ بھی ہو رہا ہے تو جو سرور محسوس ہوتا ہے اس کو بیان کرنا مشکل ہے مگر یہ شعر ملاحظہ کیجے:
آساں نہیں ہے دوست ،یہ شعر و سخن مگر
دو گھونٹ نے ہی صاحب دیواں بنا دیا
ہجر اور انتظار کی گھڑیوں کی تصاویر آپ کو اکثر شعراء کے کلام میں کھنچی ہوئی نظر آجائیں گی مگر آج کے رنگ میں جیسے اسے تک بندیاں میں برتا گیا ہے وہ منفرد ہے۔۔۔ ذرا یہ تین اشعار ملاحظہ کیجے آخر مصرع ان اشعار کو یکایک روایت سے نکال کر جدیدیت سے جوڑ دیتا ہے اور یہ آج کا عکاس بن جاتا ہے:
زلفوں کی گھٹاؤں سے کبھی آنکھوں سے پلا دی
رات آئی تو ساقی نے بڑی دھوم مچادی
جاگا ہوں رات بھر تیرے آنے کی خوشی میں
اے وعدہ شکن ، تو نے مری نیند اڑا دی
کوشش بھی بھلانے کی تجھے، ہوگئی غارت
کیوں فون گھما کر مجھے آ واز سنادی
منظر کشی اور حال دل کا امتزاج یہاں دیکھئیے:
یہ رنگ شفق ہے یا میرے خون کی سرخی
شاید کہ فلک نے بھی میرا خون پیا ہے
اب اشک ہی رہتے ہیں میری آنکھ میں کیفی
دنیا کے غموں نے میرا گھر دیکھ لیا ہے
غمِ جاناں کے ساتھ غم زمانہ بھی لگا ہؤا ہے، کیفی بھائی کے یہاں بھی حالات کا غم خوب جھلکتا ہے:
اعتماد کیوں کر ہو عدالتوں پر
جب ٹھیک فیصلے نہیں ہونگے
منتظر رہیئے اب قیامت کے
ٹھیک فیصلے تو وہیں ہونگے
حالاتِ حاضرہ ان پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اس کا بہترین اظہار ان کی نظم جناح میں ہوتا ہے:
جناح
ہم نے تجھ کو بھلایا اور غافل ہوگئے
ذلیل و خوار ہو گئے
ہم جو رہبر تھے ہم سے رہبری چھن گئی
اور مسلمان ایک مردہ قوم بن گئے
اب میں بلا تبصرہ صرف نمائندہ اشعار یہاں درج کرتا ہوں جن سے آپ کو میرے کہے پر یقین آئے گا:
دوپٹہ اوڑھ کر یو ں جا رہے ہو
کہو مجھ سے کیوں اب شرمارہے ہو
ملا کرتے تھے مجھ سے بے تکلف
ہوا کیا ہے کہ اب گھبرا رہے ہو
—
دو دن فقط ہوئے ہیں پر لگتا ہے اس طرح
تم سے ملے ہوئے مجھے اک سال ہوگیا
کیا یہ بروسٹ ہے یا مٹن لیگ پیس ہے
آکر میری پلیٹ میں کیوں دال ہو گیا
—
اپنے آپ میں خوش تھا میری جو شامت آئی
پہلے مونہہ سےکیا قبول اور پھر لکھ کر دے دیا
—
جس طرح بھی ممکن ہو ان سے جا کر کہہ دینا
میری آس پر نہ بیٹھیں میں نے شادی کر لی ہے
کیفی کی شاعری ہے کیا۔۔۔ اس کو کیفی سے بہتر کون بتا سکتا ہے لہٰذا اس مضمون کا آخر بھی وہی ہے جو کیفی کا حرفِ آخر ہے:
وقت کے دھارے میں بہے جاتے ہیں
جو آتا ہے دل میں وہ کہے جاتے ہیں
غم جو دیتے ہیں وہ ہم کو کیفی
ہم وہ ہنس ہنس کے سہے جاتے ہیں
کیفی بھائی ”تُک بندیاں‘‘ کے پیش لفظ میں اس بات کے شاکی نظر آتے ہیں کہ ان کی تین اُردو اور ایک انگریزی تصنیف، بِکی تو نہیں لیکن تحفۃً تقسیم ہو کر وجہِ شہرت بن گئیں۔ اس دور میں ادبی کتاب شائع کرنا ایک مہنگا شوق ہے اور یہ امید رکھنا بھی فضول ہے کہ کتابوں کی فروخت سے طباعت و تقسیم کا خرچہ نکل آئے گا۔ البتہ اگر کیفی بھائی بات مان لیں تو اس کتاب کا کم از کم پہلا ایڈیشن گرم پراٹھوں کی طرح بک جائے گا (ہاٹ کیک اپنی طرف نہیں چلتے) بس کرنا یہ ہو گا کہ سر ورق پر ”تک بندیاں‘‘ کا ’تُک‘ بہت چھوٹا سا لکھا جائے، خواہ پڑھنے میں بھی نہ آئے!
باقی رہے نام اللہ کا!