جرمنی میں مقیم منفرد اسلوب کے حامل شاعر، جاوید عادل سوہاوی کا مجموعہ کلام ”اقلیم‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

ربعیہ کنول مرزا نے لکھا ہے کہ ”شاعری ان منظم جذبات کا نام ہے جو فی البدیہہ نازل ہوتے ہیں۔ ان جذبات کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں. یہ ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے اور اسی کے ذریعے شاعر ایسے واقعات بھی، جو اس نے دیکھے نہیں ہوتے بلکہ صرف پڑھے یا سنے ہوتے ہیں، ان کو اس طرح بیان کر جاتا ہے جیسے اس کے سامنے وقوع پذیر ہو رہے ہوں.‘‘
جاوید عادل سوہاوی اُردو شاعری میں ایک منفرد اسلوب کے حامل ہیں. ان کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے وہ یورپ میں رہ کر اُردو ادب کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہیں. ان کا پہلا مجموعہ کلام ”گردابِ غم‘‘ 2002ء میں منظر عام پر آیا. اس کے بعد ”ساون کے آخر میں‘‘ 2005ء، ”خاموشی، اِک تماشا‘‘ 2018ء، نعتیہ مجموعہ ”اسمِ معطر‘‘ 2020ء، پنجابی مجموعہ کلام ”کچی نیندر‘‘ اور سالِ رواں (2021ء) میں ان کا چھٹا مجموعہ کلام ”اقلیم‘‘ ہمارے سامنے ہے.

اقلیم دراصل ان کا مجموعہ غزلیات ہے جس میں ان کی سو سے زائد غزلیات شامل ہیں. مجموعہ کی ابتداء حمد و نعت سے ہوتی ہے جن سے کچھ منتخب شدہ اشعار شاملِ کتاب ہیں.
ان کی غزلیں عمدہ اشعار اور خیالات سے مزین ہیں. جاوید عادل سوہاوی کی کئی غزلیں جدید اُردو شاعری کی اعلٰی مثال پیش کرتی معلوم ہوتی ہیں. ان کا لہجہ جدیدیت اور غنائیت سے بھرپور ہے:

تمارے ہجر نے جو زخم مجھ کو بخشا ہے
وہ زخم پھول ہے اور پھول اندمالی نہیں
یہ تو جو اپنے ہی دل کی صدا سے بھاگتا ہے
خرد کے باغ میں سبزے کی پائمالی نہیں

جاوید عادل سوہاوی کے یہاں مختلف اور منفرد ردائف دیکھنے کو ملتے ہیں، ایک غزل کے اشعار دیکھیے:

احساس کے مہکے جنگل میں اک لڑکی سانس لیتی ہے
دل کے اس بھیگے جنگل میں اک لڑکی سانس لیتی ہے

جاوید عادل سوہاوی کے شعری تخیل کی بلندی مکمل طور پر قارئین کے سامنے آتی ہے اور بسا اوقات ایک ایک شعر رمزیت کے نئے نئے زاویوں سے آشنا کرتا ہے. آپ کی شاعری قلبی واردات، بلند خیالات، تشبیہ و استعارات کا پراثر مجموعہ ہے. اس سے قبل آنے والے ان کے پانچ شعری مجموعے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل کر چکے ہیں.
جاوید عادل سوہاوی شعریت کے سفر پر جب سے نکلے ہیں، میدانِ سخن میں اپنے گہر لٹاتے دکھائی دیتے ہیں. ان کے کلام میں منفر و نادر تراکیب و قوافی کی گلکاریاں جابجا دکھائی دیتی ہیں:

خواہشوں کی مچھلیاں شب بھر تڑپتی رہ گئیں
چاند نے یوں جال پھینکے تھے دل بے تاب میں

جاوید عادل سوہاوی کا سفرِ سخن مسلسل بلندیوں کی جانب ہے اور ان کی شاعری سچے اور خالص خیالات و جذبات سے عبارت ہے. آپ کا لہجہ، الفاظ کے رنگ و آہنگ کو نئے معنی سے روشناس کرواتا ہے اور وہ لمحوں میں صدیوں کی مسافت طے کرتے دکھائی دیتے ہیں.


جاوید عادل سوہاوی (جاوید اقبال) پاکستان کے ضلع منڈی بہاؤالدین کے نواحی گاﺅں سوہاوہ بولانی میں، 1969ء میں پیدا ہوئے۔ سکول میں جاوید اقبال کے ساتھ تخلص حسرت مشہور تھا. آپ کے والد ماسٹر غلام علی صاحب سکول میں پڑھاتے تھے اورانہیں ادب سے بہت لگاﺅ تھا. جاوید عادل سوہاوی اسی گھریلو ادبی ماحول کی وجہ سے شاعری کی طرف راغب ہوئے۔ کالج میں پروفیسر شمشیر احمد صاحب اور خالہ زاد بھائی حاجی امجد اقبال کے شعر پسندانہ مزاج اور صحبت نے مزید شعر گوئی کی طرف مائل کیا. آپ گریجوایشن کے بعد جرمنی چلے گئے ا ور1999ء سے شعر کہنا شروع کیا۔ عرصہ30سال سے جرمنی میں ہی مقیم ہیں. گھریلو مصروفیات کے علاوہ فیس بک پر مختلف ادبی و تنقیدی پروگرامز اور سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں.