حکیم محبوب زاہدؔ کا دوسرا مجموعہ کلام کھولتے ہی فلیپ پر نگاہ پڑی جہاں خوب صورت لب و لہجے کے ہر دلعزیز شاعر محترم میجر (ر) شہزاد نیر کے تاثرات تحریر تھے. چند ہی ثانیوں میں وہ مناظر یادوں کے پردے پر نمودار ہونے لگے جب محترم شہزاد نیر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باعث کوئٹہ میں فروکش تھے اور اکثر کسی نہ کسی مشاعرے یا ادبی مجلس میں ان سے ملاقات ہوجایا کرتی تھی. میں خود کو ان خوش نصیبوں میں شامل سمجھتا ہوں جنہیں متعدد بار ان کااعلٰی کلام براہِ راست ان سے سننے کا موقع ملا ہے. یادش بخیر ایک بار تو ایسا ہوا کہ ایک ہی دن میں دو مختلف ادبی مجالس میں ان سے ملاقات رہی. مجھے ان کی صائب رائے سے مکمل اتفاق ہے کہ حکیم محبوب زاہد سہل ممتنع کے شاعر ہیں. ’’اور گِرہ کھل گئی‘‘ کا مطالعہ کریں تو ان کے شعری اسلوب کی مزید جہات شاعری کا ذوق رکھنے والوں کو متوجہ کرتی دکھائی دیتی ہیں.
سہل ممتنع تو ان کے کلام میں کامل اور غالب طور پر پائی جاتی ہے، مزید یہ کہ ان کے کلام میں خفگی، آزردگی کا خفیف سا اظہار بھی نہیں ملتا ہاں کہیں کہیں وہ شکوہ کناں ضرور دکھائی دیتے ہیں. ’’اور گِرہ کھل گئی‘‘ میں حکیم محبوب زاہدؔ کی لاجواب غزلیات اور کچھ نظمیں بھی شامل ہیں. ان کی شعر گوئی بلاشبہ قلب و نظر میں اترنے والی ہے. وہ نہایت عمدگی سے اظہارِ خیالات کرنے کے فن سے آگاہ ہیں. ان کی شاعری بے ساختہ اور فطری ہے. حالی نے اسے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں نیچرل شاعری کہا ہے. حکیم صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہی سادہ بیانی ہے. وہ بہت روانی اور خوش بیانی سے اپنی شاعری کے محاسن ظاہر کرتے چلے جاتے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں:
کہتی رہی یہ بات مری آگہی مجھے
میں زندگی کو ڈھونڈھ لوں یا زندگی مجھے
حکیم محبوب زاہدؔ کی غزلوں میں ترنم کی کوئی کمی نہیں، اس غنائیت و موسیقیت کے باعث ان کی اثر انگیزی کافی زیادہ ہو جاتی ہے. شاعر کے ہاں ولولہ، جوش اور والہانہ پن نمایاں ہے. آپ اپنی بصیرت افروز نگاہوں سے جو بھی مشاہدہ کرتے ہیں، اس کا ابلاغ بصورت اشعار کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں:
اک تیرگی ہے رات کے دامن میں کہیں گم
اک گفتگو ہے جو مری الجھن سے جڑی ہے
امید و رجائیت کی کرنیں ان کے کلام سے پھوٹتی دیکھی جا سکتی ہیں، ایک جگہ کہتے ہیں کہ:
کھلیں گے پھول اب ہر سو ذرا موسم بدلنے دو
ہوا میں ہوگی اک خوشبو ذرا موسم بدلنے دو
اسی امید پر قائم خزاں میں پیڑ ہیں سارے
بدل جائیں گے رنگ و بو ذرا موسم بدلنے دو
شاعر کے یہاں جدید غزل کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے:
ہے مقابل مرے سیلاب کا منظر لوگو
آشیانہ ہے مرا پانی کی زد پر لوگو
ایک کہرام مچا ہے مرے اندر لوگو
صفِ ماتم ہے بچھی شہر میں گھر گھر لوگو
حکیم محبوب زاہدؔ کا یہ مجموعہ کلام چند اعلیٰ نظموں سے بھی مزین ہے. وہ حالات زیست پر شکوہ کناں ہونے کے بجائے صبر و شکر کا دامن تھامے ہوئے دکھائی دیتے ہیں:
دے مجھے صبر کی توفیق مرے عرش نشیں
غم سے آزاد کسی روز مری ذات بھی ہو
ان کی غزل گوئی میں کلاسیکی اسلوب کی بھی کوئی کمی نہیں، نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
جب حسن کو آدابِ محبت نہیں معلوم
تو آج ہی ہر طالب دیدار بدل دو
ایک اور غزل کے اشعار دیکھیے:
منظر ہے میری آنکھ میں تیرے فراق کا
ہونا ہے قتل اب مجھے ہر دم تمام شب
جل بجھ کے خاک ہو گیا پروانہ وار میں
آیا نہ میرے پاس وہ ہمدم تمام شب
زاہدؔ ملے ہیں گھاؤ مجھے گام گام پر
رکھتا رہا ہوں ان پہ میں مرہم تمام شب
ان کے کلام میں شائستگی، سلاست، وقار اور قرینہ ہے:
جل بجھ کے خاک ہو گیا پروانہ وار میں
آیا نہ میرے پاس وہ ہمدم تمام شب
ایک اور غزل میں کہتے ہیں:
یہی تو جرم محبت کی آخری حد ہے
تماشا شہر میں مجھ کو بنا دیا تو نے
آپ کے کلام میں حالات زیست کی منظر کشی بھی ہے اور جذبات و احساسات کا ایک جہان بھی:
لکھ لیا حالات نے جب جب دیا اذن کلام
عمر بھر حصے میں اپنے یہ ہی مزدوری رہی
حکیم محبوب زاہدؔ طرز ادا اور طرز احساس کو برتنا خوب جانتے ہیں. ان کا کلام وارفتگی، نغمگی اور پختگی کی خصوصیات کا حامل ہے. وہ نزاکت و لطافت کا دامن تھامے محسوس ہوتے ہیں. ان کا یہ مجموعہ کلام ان کی قادر الکلامی اور خوش بیانی کی واضح دلیل ہے.