اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع

مختصر مگر پر اثر کہانی لکھنا بھی ایک فن ہے اور یہ فن اپنی تمام جزئیات سمیت اسد محمد خاں میں پایا جاتا ہے۔ اسد محمد خان بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور کچھ عرصہ لاہور رہنے کے بعد مستقل طور پر کراچی میں سکونت پذیر ہوئے۔ موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے اسد محمد خاں ایک ہمہ جہت ادیب ہیں جنہوں نے تقریباً ادب کی ہر صنف میں نہ صرف طبع آزمائی کی ہے بلکہ کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ ان کی تحریریں قریب قریب ادب کی سبھی اصناف (افسانے، شاعری، خاکے، ڈرامے، کھیل اور گیت وغیرہ) میں شامل ہیں۔ اسد محمّد خاں کے طویل ادبی سفر کے دوران ان کو ملنے والے متعدد ادبی ایوارڈ ان کی سرخروئی  کے ضامن ہیں جن میں پاکستان کا اعلٰی سول ایوارڈ ”تمغۂ امتیاز“ بھی شامل ہے۔  ان کی اکیس کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے جو
“The harvest of anger and other stories”
کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئیں۔ ان کی ایک کہانی ”ترلوچن“ برطانیہ کے او لیول کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اسد محمّد خاں کی کہانیاں منفرد کرداروں کے متنوع رنگوں اور بولیوں سے سجی ہوئی اس دھنک کی مانند ہیں جو کہ قاری کو نئے اور اچھوتے رنگوں سے روشناس کروا کر فکر و تخیل کے وسیع جہاں کا باسی بناتی ہیں۔
اسد صاحب روایتی کہانی کار بالکل بھی نہیں ہیں جو اپنی کہانیاں قارئین کو پکی پکائی کھیر کی طرح پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیں اور قارئین ان سے لطف اٹھائیں۔ ان کی زیادہ تر کہانیاں علامتی اور تمثیلی پیرائے میں بیان کی گئی ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے مطالعہ کی وسعت، تاریخ پر گہری نظر اور تھوڑا بہت جغرافیہ کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ یعنی ان کی کہانیوں کو سمجھنے کے لیے قاری کو غوروخوض کرنا پڑتا ہے، تحقیق کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر وہ صحیح معنوں میں کہانی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ نہیں تو کہانی سر کے اوپر سے ہوائی جہاز کی طرح گزر جاتی ہے۔
 اب تک میں اسد محمد خان صاحب کی پانچ کتابیں (کھڑکی بھر آسماں، یادیں: گزری صدی کے دوست، ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی، تیسرے پہر کی کہانیاں اور برج خموشاں) پڑھ چکی ہوں۔ ذیل میں ان کا مختصر تعارف درج ہے:

کھڑکی بھر آسماں: 

یہ مختصر کہانیوں کا مجموعہ اپنے خالق کے وسیع تخیل، مشاہدہ کی گہرائی اور انداز و بیان کی لطافت کا ترجمان ہے۔ کہانیوں کی بنت ایسی ہے کہ آپ یکے بعد دیگرے پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اور اندازبیاں تو سونے پہ سہاگہ۔
یہ کتاب ان کی تیرہ مختصر کہانیوں اور ایک نظم کا مجموعہ ہے۔ یہ کہانیاں عمدہ مرصع کاری کا نمونہ ہیں جن کے کردار بیش قیمت نگینوں کی طرح کہانی میں مرصع ہوئے ہیں۔ یہ کردار اپنے اندر ایسی گہرائی اور حلاوت لیے ہوتے ہیں کہ قاری پڑھتے ہوئے اسے اپنے اندر اترتا محسوس کرتا ہے جیسے کہ ”باسودے کی مریم“ اور ”مئی دادا کا کردار“، زبان مختلف ہونے کے باوجود پڑھتے ہوئے مزہ آتا ہے اور یہی چیز انھیں باقی لکھاریوں سے منفرد بناتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے اسد محمّد خاں کے افسانے ”باسودے کی مریم“ کے بارے میں کہا تھا ”اگر افسانہ نگاری بحیثیت صنف معدوم بھی ہو جائے تب بھی ‘باسودے کی مریم’ زندہ رہے گا“۔

 برج خموشاں:

یہ مجموعہ گیارہ کہانیوں پر مشتمل ہے جن میں چار کے علاوہ باقی تمام علامتی و تجریدی کہانیاں ہیں اور ان میں سے ایک بورخیس کی کہانی کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کہانیاں سائنس فکشن، مزاح، سیاسی تعریض، تاریخی ادوار و شخصیات، معاشرتی نا انصافی اور بے ایمانی جیسے موضوعات پر مبنی ہیں۔ ان کہانیوں میں معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے کرداروں سے لے کر عہد پارینہ کے اعلٰی منصب داروں کے احوال زبان و بیاں کی اس خوب صورتی کے ساتھ درج ہیں گویا کرداروں سے بالمشافہ ملاقات ہو رہی ہے۔

تیسرے پہر کی کہانیاں:

ایک قدیم زمانے کے ماحول اور کرداروں کو ہمارے سامنے اس طرح پیش کرنا کہ ہمیں مانوس لگیں، اسد محمد خان کے تخیل اور قلم کا کمال ہے۔ قاری ایک ہی جست میں سیکڑوں سال پیچھے پہنچ جاتا ہے، جیسے اس کے ہاتھ میں کوئی طلسمی دور بین آ گئی ہو۔
معاصر، قدیم اور عالمی تحریروں پر مشتمل یہ مختصر سی کتاب اپنے منفرد انداز بیاں اور متنوع موضوعات کی بدولت مجھے اچھی لگی۔ اسد محمد خان صاحب کی کہانیوں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کے کرداروں کی زبان، ان کے ماحول اور دور کے مطابق ہوتی ہے۔ ان کے کردار چاہے جاہل، اجڈ اور گنوار، چور اچکے ہوں یا پھر کسی قدیم سلطنت کے بادشاہ، ان کی زبان بغیر کسی ملاوٹ کے ان کے ماحول کے عین مطابق ہوتی ہے۔ یہ اسد محمد خان صاحب کی خامہ فرسائی کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے شیر شاہ سوری اور فیروز شاہ تغلق کے تاریخی ادوار کو کہانی کی صورت ادب کے لطیف پیرائے میں اس طرح سے بیان کیا ہے کہ قاری اس قدیم ماحول اور اس کے کرداروں سے اجنبیت کے بجائے مانوسیت محسوس کرتا ہے۔

ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی:

یہ کتاب ٹکڑوں میں بیان کیے گئے متعدد و متنوع واقعات پر مشتمل ہے جس میں سے کچھ واقعات اس سفرنامے پر مشتمل ہیں جو انہوں نے اپنے  ڈرامے کے شوٹ کے سلسلے میں ریکی کے لیے فرانس، سپین اور پرتگال کے کچھ شہروں کا کیا تھا تو وہاں کے لوگوں اور شہروں سے متعلق دلچسپ باتیں  بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ عزیزوں اور دوستوں کو لکھے گئے چند خطوط اور ای میلز، دو مختصر عالمی کہانیوں ”حوان رلفو کی لووینا“ اور ”مارک ٹوئین کی آ وار پریئر (دعائے جنگ)“ کے اردو تراجم شامل ہیں۔ آخری باب میں انہوں نے اپنی چند مختصر کہانیوں کے بارے میں بات کی ہے۔ ان کے عنوانات کے ماخذ کیا ہیں، لکھنے کی تحریک کیسے اور کہاں سے ملی، کرداروں کی خصوصیات و تعارف اور علامتی کہانیوں کے کچھ تفصیل پیش کی ہے۔ ان کی کہانیوں کے عنوانات بہت منفرد اور گہرائی لیے ہوتے ہیں۔

یادیں: گزری صدی کے دوست:

جوانی کی دہلیز پار کرنے کے بعد جب انسان بڑھاپے کی سرحد پر قدم رکھتا ہے اور اپنی گزری ہوئی زندگی پر نظر غائر ڈالتا ہے تو پوری زندگی کی جمع پونجی صرف اور صرف ”یادیں“ نظر آتی ہیں جو کہ زندگی کے باقی ماندہ سفر میں زادِ راہ ہوتی ہیں۔
یہ کتاب مجموعہ ہے یاران رفتہ کی باتوں کا، ان کے سنگ بیتے لمحات کا، ان سے بچھڑنے کی اذیّت کا. اس مجموعے میں اسد محمّد خان صاحب لڑکپن سے جوانی تک، دوستوں اور عزیزوں کے بتائے ہوئے لمحات کو بیان کرتے ہیں جو کہ یادوں کی صورت وقتاً فوقتاً درِ دل پہ دستک دیتے ہیں اور ان کے دل کو بیتے دنوں کی لذت درد سے آشنا کرتے ہیں۔
اس کتاب میں اسد صاحب نے ایسے لوگوں کے خاکے اور یادداشتیں بھی بیان کی ہیں جو کہ ان کی زندگی میں برگد کے چھتنار درخت کی مانند تھے۔ جن کی یادوں کی چھاؤں ابھی تک ان کی زندگی کو فرحت بخش ٹھنڈک سے ہمکنار کر رہی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کو روشنی کے ہالے اور خوشبو کی طرح اپنے آس پاس محسوس کرتے ہیں۔ مزاح اور گہرے جذبات سے بنی گئی یہ کہانیاں، خاکے اور یادداشتیں پڑھنے والوں کو عجیب سے احساسات سے دوچار کر دیتی ہیں جہاں قاری ہنستے ہنستے رو پڑتا ہے اور روتے روتے ہنسنے لگ جاتا ہے۔ اس مجموعے میں مختلف خطوں اور ادوار میں سانس لیتی کچھ کہانیاں بھی موجود ہیں اور آخر میں سات وداع کی نظمیں ہیں۔
اسد محمّد خاں کی نوکِ قلم سے صفحہ قرطاس پر بکھری ”گزری صدی کے دوستوں کی نثر سے نظم میں ڈھلتی یادیں“ پڑھنے والوں کے لیے ایک مکمّل ٹریٹ ہے۔ 
اسد محمد خان کو پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو اردو، فارسی اور ہندی کے مختلف نادرونایاب الفاظ اور تراکیب سیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کے کردار مختلف مذاہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں جن کو وہ بغیر ملاوٹ ان کی ازلی زبان اور انداز میں پیش کرتے ہیں اور یوں قاری مختلف زبانوں، ان کے الفاظ و تراکیب، تہذیبوں اور ان کے رسم و رواج سے آشنا ہوتا ہے۔