نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر

یہ کتاب محترمہ تابندہ سلیم کے کالموں کا مجموعہ ہے. آپ ایک مدت سے ملک کے مختلف اخبارات میں کالم نگاری کر رہی ہیں. تابندہ سلیم ایک تجربہ کار کالم نگار ہیں جنہوں نے مختلف النوع موضوعات پر دلچسپ اور معیاری کالم تحریر کرکے اپنا لوہا منوایا ہے. انہوں نے اپنی اس کتاب کا انتساب اپنی والدہ کے نام کیا ہے. وہ لکھتی ہیں: ”اس ہستی کے نام جس کی گود میری پہلی درسگاہ تھی. میری ماں کے نام کہ ان کا سکھایا ہوا آج صفحہ قرطاس پر منتقل ہوا.“
مصنفہ نے اپنی کتاب کے آغاز میں اظہارِ تشکر کے زیرِ عنوان تحریر کیا ہے کہ ”میرے کالموں کا مجموعہ ‘لفظ بولتے ہیں’ کو تحریر کرنے کے دوران بہت سے ایسے مواقع آئے کہ جب میری ہمت اور حوصلہ جواب دے گیا، دل اچاٹ ہوا تو میں نے اللہ تعالی سے کامیابی کی دعا کی. اللہ تعالٰی جو اپنے بندوں کو کبھی ناکام نہیں دیکھ سکتا، اس نے مجھے ایسی سرفرازی بخشی، جو آج آپ کے سامنے ہے. میرے والدین اور دوست احباب نے بھی میری ہمت کو بڑھایا. میرے لیے اور میری کامیابی کی دعا کی. اسی طرح میرے کولیگز نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی، جن کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں اور سمجھتی ہوں کہ ان معاملات میں مخلص دوست احباب کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی وجہ سے میرے کالموں کا مجموعہ ‘لفظ بولتے ہیں’ آپ تک پہنچ سکا.“ کتاب کا بغور مطالعہ ہمیں یہ آگاہی فراہم کرتا ہے کہ اس کتاب میں 1994ء سے 2023ء تک لکھے گئے کالموں کو شامل کیا گیا ہے. اس اعتبار سے یہ ان کے کالموں کا ایک انتخاب محسوس ہوتا ہے. کتاب کے آخر میں مصنفہ نے تمام کالموں کی اشاراتی ترتیب اور ان اخبارات کے نام بھی تحریر کر دیے ہیں جہاں وہ کالم طبع ہوئے تھے.
عابد محمود عزام کالم نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”کالم نگاری کی سماجی و سیاسی، تہذیبی و تمدنی، اخلاقی اور ہمہ گیر وسعت و معنویت اور افادیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ کئی کالم نگاروں کی تحریروں نے قارئین کی ذہنی سطح بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کئی کالم نگار اپنے قارئین کو مختلف موضوعات پر نئے زاویے اور جدید خیالات سے روشناس کراتے ہیں، جس کی بدولت لوگوں میں کسی جماعت یا مکتبہ فکر کی اندھی تقلید کے بجائے حقائق پر مبنی رائے رکھنے کا رحجان پیدا ہوتا ہے۔ مخلص اور اچھا کالم نگار ہزاروں لوگوں کی کردار سازی کرسکتا ہے۔ اس کا قلم غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح ثابت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس کے الفاظ رائے عامہ بدلتے ہیں۔ اس کے نظریات و افکار قارئین کے ذہنوں میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ سچا کالم نگار اپنے قارئین سے محبت کرتا ہے اور محبت میں جھوٹ، ریاکاری اور منافقت نہیں ہوتی، بلکہ حق اور سچ ہوتا ہے۔ وہ اخلاص، مثبت اور معتدل سوچ کے ساتھ لکھتا ہے اور اپنے مفادات کی خاطر کبھی ضمیر کا سودا نہیں کرتا۔ اس کے پیشِ نظر حقائق ہوتے ہیں۔ کالم نگار ایک مصلح کی طرح ہوتا ہے۔ معاشرے کے سامنے صحیح اور غلط راہ کی نشاندہی کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔“
تابندہ سلیم کے کالمز میں آپ کو درج بالا خصوصیات اپنی پوری تابانی سے روشن دکھائی دیں گی. ان کے اس کالمی مجموعے میں 43 مختلف موضوعات پر کالم موجود ہیں. انہوں نے اسلامی موضوعات کے علاوہ قومی موضوعات پر بھی کافی کچھ لکھا ہے. وہ اتحاد و اتفاق، ترقی اور انسانی خوشحالی کی قائل ہیں. انہوں نے کتب بینی، سوشل میڈیا کا صحیح استعمال، پاکستان میں میڈیا کے کردار، حکومت کی ثقافتی پالیسی سے لے کر یوم آزادی، زرعی ادویات کی احتیاط، لائیو سٹاک اور کشمیر کے بارے میں بہترین کالم تحریر فرمائے ہیں. ان کی تحریر میں رعنائی حسن اور تابندگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے. وہ نہایت سادہ، رواں اور سلیس انداز میں اپنا نکتہ نظر بیان کرتی ہیں. ان کے ہاں بوجھل اعداد و شمار کی بھرمار نہیں ہوتی البتہ وہ ہر موضوع پر اتنی جامعیت سے قلم اٹھاتی ہیں کہ تحریر کا حق ادا ہو جاتا ہے.
ان کی یہ کتاب پریس فار پیس پبلیکیشنز، برطانیہ کے زیرِ اہتمام شائع کی گئی ہے. یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس نے انتہائی قلیل مدت میں نہایت اعلٰی کتابیں شایع کی ہیں. پروفیسر ظفر اقبال کی رہنمائی میں ادارے کے تحت متنوع موضوعات پر بہت سی خوب صورت کتابیں شائع ہو کر قارئین کے دلوں میں مقام بنا چکی ہیں. ادارے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ طباعت کے معیار پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا اور اعلٰی ترین معیار کو بہر صورت برقرار رکھا جاتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں