اکرم خاورؔ سے میں ذرا بھی واقف نہیں ہوں، گو وہ میرے غیر رسمی شاگرد ہیں۔ یہاں تک کہ میں ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ وہ کوئٹہ میں رہتے ہیں، پنجابی اُن کی مادری زبان ہے، اور وہ یونیورسٹی کے سند یافتہ ہیں۔ انہوں نے شاید زندگی میں بہت ہی کم مشاعروں میں بھی شرکت کی ہو، لیکن اس کے باوجود وہ شاعری کرتے ہیں اور اچھی شاعری کرتے ہیں۔
ہم لوگ عموماً اس حقیقت سے صرفِ نظر کرجاتے ہیں کہ کسی بھی میدان میں خاص چیز کے لیے عام چیزوں کا ہونا لازم ہے۔ جیسے کسی کھیل، مثلاً فٹبال کے گیارہ بہت اچھے کھلاڑی جب ہی پیدا ہو سکتے ہیں جب ہزاروں اچھے کھلاڑی موجود ہوں، اور ہزاروں اچھے کھلاڑی جب ہی پیدا ہوں گے جب لاکھوں عام کھلاڑی ہوں۔ یہی بات علم و ادب کے میدان پر بھی صادق آتی ہے۔ بہت اچھے لکھنے والے عام لکھنے والوں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہی نمایاں ہو سکتے ہیں۔ خلا میں تو کوئی بھی چیز جنم نہیں لیتی۔
میں اس بات کا بھی قائل نہیں ہوں کہ آپ جس شخص کے فن کے بارے میں بھی قلم اٹھائیں اسے یکتائے روزگار ثابت کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے مواقع پر متوازن رائے ہی لکھنے والے، پڑھنے والے اور موضوعِ سخن شخصیت کے بارے میں مفید ہو سکتی ہے۔
اکرم خاورؔ کی شاعری اچھی شاعری ہے۔ اس شاعری کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ مشاعروں کے پروردہ نہیں ہیں سوائے اس کے کہ آن لائن فی البدیہہ مشاعروں میں شرکت کرنے کے شوقین ہیں، اور اس سلسلے میں، مَیں نے ان کو مشورہ بھی دیا ہے کہ فی البدیہہ شاعری کرنے سے اجتناب کریں، کیوں کہ یہ بڑے سے بڑے شاعر کو ڈبو سکتی ہے۔ شاعر کی خوبی یہ نہیں ہے کہ وہ کتنی جلد شعر کہہ سکتا ہے، اس کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کتنا دلکش شعر کہہ سکتا ہے۔
جو لوگ مشاعروں کی پیداوار ہوتے ہیں ان کی شاعری ایک خاص رنگ کی ہی ہوتی ہے۔ اور ایسی شاعری ہم شب و روز سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔لگے بندھے موضوعات اور خیالات اور لگے بندھے الفاظ و تراکیب۔ مگر مشاعروں سے دور رہ کر شاعری کرنے والوں کے پاس تھوڑے بہت ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں ندرت ہوتی ہے۔ اور اکرم خاور ؔکے اشعار میں مجھے یہی ندرت اچھی لگتی ہے، جیسے:
بہت روکا تھا خاورؔ بے خودی نے
میں اپنے آپ میں پتھرا گیا پھر
اور
سبھی کردار زندہ ہو رہے ہیں
زمانہ وقت سے گھبرا گیا پھر
ان کی شاعری میں مردانہ رنگ غالب ہے گو چند مقامات پر انہوں نے نسوانی رنگ میں بھی بات کی ہے۔ شاید یہ معاشرے کا جبر ہے یا ممکن ہے احتیاط ہو۔ نسوانی آہنگ کے اشعار میں نمایاں شعر دیکھیے:
خیال آ یا کوئی بن کر اُجالا
وہ اپنے آپ سے شرما گیا پھر
مزید
بہت کچھ جانتا ہے پھر بھی وہ چپ چپ سا ہے خاورؔ
اسے معلوم ہے میں اس کی خاطر ہی سنورتا ہوں
یہاں طرز گفتگو مردانہ ہے مگر رنگ نسائی بھی ہے کیونکہ سنورنے کا ذوق اسی پر سجتا ہے۔دوہوں میں نسائی رنگ زیادہ واضح ہے۔ ایک دوہے میں دیکھیے نازک احساسات کو کتنی نفاست سے سمویا ہے:
جونہی میرے پاس وہ آئے من میرا للچائے
مٹی جیسی ہو جائوں میں منہ سے نکلے ہائے
اکرم خاور ؔکے پاس منفرد اور نادر قافیوں کے استعمال کی بھی اچھی مثالیں مل جاتی ہیں:
خاورؔ تو اُس کے عشق میں برباد ہو گیا
جیتا ہے اُس کے ہجر میں اب سر پٹک پٹک
میر سوز ؔکی زمین میں کہی گئی اس غزل نے مجھے واقعی حیران کیا۔ لٹک لٹک، بھٹک بھٹک کے قافیے میں معقول غزل کہنا کسی عام شاعر کے بس کی بات نہیں۔ ساتھ ہی یہ غزل:
آنکھوں کے میکدے کو محبت شناس کر
گر ہو سکے تو عشق میں جلوؤں کو پاس کر
اور
اُسے خبر ہی نہیں کیا کمال ہیں اُس میں
جو حُسن و عشق کی وادی میں منفرد ٹھہرا
میں منفرد اور مستعد جیسے قافیوں میں غزل کہنا بھی قابلِ داد ہے۔قافیوں کے ساتھ ہی کچھ خوبصورت ردیفیں بھی نظر کو کھینچتی ہیں:
آنکھ میں کرچیاں چبھیں خاورؔ
دیکھ کر اپنا حال شیشے میں
’شیشے میں‘ کی ردیف نبھانا اچھا خاصا مشکل ہنر ہے مگر اکرم خاور نے اسے نفاست سے نبھایا ہے۔ اس کے علاوہ ’ہوتی جا رہی ہے‘، ’ہے آجکل‘، ’کے رنگ بھی کوئی رنگ ہوتے ہیں؟‘، ’لکھ رہا ہو ںمیں‘، ’ہوتی جا رہی ہیں‘، ’آنکھیں تھیں‘ کی ردیفیں بھی خوب صورت ہیں۔
اس کتاب میں غزلوں کے بعد ایک حصّہ نظموں کا بھی ہے۔ زیادہ تر نظمیں آ زاد نظم کی ہیئت میں ہیں۔ ان میں کوئٹہ کے سانحے پر لکھی جانے والی دو نظمیں، جن میں سے ایک غزل کی ہیئت میں ہے، بہت اثر انگیز ہیں۔ ساتھ ہی ’بچّی کی فریاد‘ کے عنوان سے لکھی گئی ایک نظم معاشرے کی کراہ اور کراہیت کا آئینہ ہے۔ بدلتے ہوئے حالات میں سماجی روایات کو بدلنے کا احساس دلانے کے لیے اس نوع کی شاعری بہت موثّر ہو سکتی ہے۔
اس کتاب میںجس چیز نے مجھے زیادہ حیران کیا وہ ان کے لکھے ہوئے دوہے ہیں۔ دوہوں کی زبان بڑی حد تک ہندی کے قریب ہے اور اتنی اچھی طرح استعمال کی گئی ہے کہ مجھے اُن سے یہ پوچھنا پڑا کہ آپ ارُدُو بولنے والے خاندان سے تو تعلّق نہیں رکھتے ہیں۔
یہ دوہے وزن، آہنگ، زبان، روانی اور چاشنی کے اعتبار سے حیران کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ موضوع اُن کا محبت ہی ہے ایک ڈھکی چھپی سی بیباکی کے ساتھ۔ کچھ دوہے ملاحظہ کیجیے:
عشق کی مدرا پیتے پیتے ہو گئے نین شرابی
پیتم نے کیا رنگ دیا ہے ہو گئے ہونٹ گلابی
——–
ساجن مورے تن کو دیکھے مل مل اکھیاں کھولے
بانہہ پکڑ کو چپ ہو جائے کچھ نہ منہ سے بولے
اس کے بعد کچھ مفرد اشعار بھی درج ہیں جن میں سے کچھ کو پڑھ کر لطف آجاتا ہے۔
مجموعی طور پر اس کتاب میں پیش کی گئی شاعری دلکش ہے۔ موضوعات اگرچہ زیادہ تر روائتی عشق اور ہجر کے گرد ہی گھومتے ہیں، اور ایک روائتی شاعر سے اِس سے بڑھ کر توقع کرنے کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہوتی ہے تاہم کہیں کہیں انہوں نے قرطاس کو وسیع کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
ایک اور چیز جو میری توجہ کا مرکز بنی وہ ان کا ساحل سے لگاؤ ہے۔انہوں نے کئی جگہ ساحل اور اس سے منسلک الفاظ کو استعمال کیا ہے اور اس طرح اپنا ایک انفرادی رنگ بنانے کی کوشش کی ہے جو قابلِ تحسین ہے۔مجھے امید ہے کہ اکرم خاورؔ اپنے اس شوق کو جاری رکھیں گے اور مستقبل میں بھی ان کے قارئین اُن کی شاعری کی لطافتوں اور نزاکتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ بہت سی نیک تمنّاؤں کے ساتھ.
(نوٹ: آصف اکبر صاحب قضائے الٰہی سے وفات پا چکے ہیں، اللہ پاک اُنہیں غریقِ رحمت فرمائے، آمین۔)
تعارف ڈاکٹر محمد اکرم خاورؔ
تعلیم: ایم فِل اُردُو لٹریچر ،ایم اے (اکنامکس) ڈی۔ایچ۔ایم۔ایس، ایل۔ایل۔بی، (اسپیشلائزیشن اسلامک لاء، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ،اسلام آباد) ڈپلومہ پبلک ایڈمنسٹریشن۔
وزارتِ دفاع میں سینئرآرڈننس مینجمنٹ آفیسر کی خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ آرڈننس ڈپو کوئٹہ کے ڈپٹی کمانڈانٹ بھی رہ چکے ہیں۔ گورنمنٹ ہائی سکول چشتیاں سے میٹرک اور گورنمنٹ صادق ایجیرٹن کالج بہاول پور سے گریجوایشن کی،جامعہ بلوچستان سے ایم اے اُردُو اورایم اے اکنامکس کرنے کے علاوہ لاء گریجوایٹ اور ہومیو پیتھک ڈاکٹربھی ہیں۔ جا معہ بلوچستان میں شعبۂ اُردُو میں بطورِ سکالر اپنی تحقیق مکمل کر چکے ہیں۔ اُن کی تحقیق کا موضوع ’’بلوچستان میں اسٹیج ڈرامہ: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ تھا. آپ مختلف سرکاری کورسسز اور ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔ اُردُو، پنجابی اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ شریف اکیڈمی جرمنی کے معزز ممبر ہیں۔ پاکستان، ہندوستان انگلینڈ اورکینیڈا کے ادبی رسائل میں اُنکے تحقیقی مقالاجات دیکھے جا سکتے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے میں شعبۂ اُرُدو کی بزمِ ادب کے صدر بھی رہے۔ انگریزی میںمختلف موضوعات پر تیس اور اُردو میں اکیس تحقیقی کتابیںتالیف و تحریر کر چکے ہیں. اُن کی باقی تصنیفات بہت جلد چھپ کر مارکیٹ میں دستیاب ہوں گی۔ اسلامی تحقیق میں اُن کی پہلی کتاب ’’بلوچستان میں چشتیہ خاندان کی آمد‘‘ اورمیڈیکل میں ’’بانجھ پن علامات و علاج‘‘ مکتبۂ یوسفیہ لاہورنے 2016-17 میں چھاپی تھی۔ آپ اُردُو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھتے ہیں. ادب سرائے انٹرنیشنل لاہورکی جانب سے اُنہیں ان کی ادبی خدمات کے صلے میں نمایاں کارکردگی کے سرٹیفکیٹ اورگولڈ میڈل سے بھی نوازا گیاہے۔ حال ہی میں ادب سرائے انٹرنیشنل کی چیئرپرسن (ڈاکٹر شہناز مزمل ’’مادرِ دبستانِ لاہور ،نازِ پاکستان‘‘) نے انہیں ریجنل ڈائریکٹربرائے بلوچستان کی ذمہ داری سونپی ہے۔ گہوارۂ فن بلوچستان نے اُن کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ادبی ایوارڈ 2021ء سے نوازا ہے۔
’’تحقیقی مقالاجات‘‘ پر مبنی اُن کی کتاب ’’تخلیق ِاُردُو ادب‘‘ اور افسانوں پر مبنی ’’چاہتوں کے درمیاں‘‘ انگریزی اور ارُدو زبان میں ’’ہارمونز کا عدم توازن ‘‘(Harmonal Imbalance) اور’’ بریسٹ کینسر‘‘(Breast Cancer) بھی لاہور سے چھپ چکی ہیں۔ میڈیکل اور جنرل تحقیق میںچالیس کتابیں کمپائل کر چکے ہیں۔ جن میں سے چارکتابیں، ’’قلّات اسٹیشنرز، پرنٹرز، پبلشرز‘‘ پیر ابو الخیر روڈ کوئٹہ میں زیرِ اشاعت ہیں۔ شاعری کے حوالے سے اُن کی پہلی کتاب ’’دریچہ‘‘ کتاب دوستی فانڈیشن نے لاہور سے چھاپی ہے اور بُک پوائنٹ جامعہ بلوچستان پر موجود ہے جب کہ دوسری کتاب ’’دھندلی شام‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ باقی تیرہ کتابیں بھی کمپیوز ہو چکی ہیں بہت جلد چھپ کر مارکیٹ میں آجائیں گی۔ وہ پاکستان کے واحد اسکالر ہیں جنہوں نے ساٹھ سال کی عمر میں یونیورسٹی آف بلوچستان سے اُردُدو لٹریچر میں ایم فِل کی ڈگری حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی تیاری کر رہے ہیں۔
ذیل میں ان کی تحقیقی کتابوں کی فہرست ہے:
1۔ Breast cancer (published) ( ،English, Urdu Published)
2۔ (English) Hysteria
3۔ ( English) Sexual and reproductive health
4۔ Functions of the human body organs(English)
5۔ (published) imbalance Hormonal اردو انگلش(published)
6۔ How to make your own family (English)
7۔ ) English Urdu ( Circumcision
8۔ ( Urdu English) سنِ یاس Menopause
9۔ خواجہ سرا Transgender (Urdu English )
10۔ Urinary Tract Infection پیشاب کی نالی کی انفیکشن ( Urdu English)
11۔ Why I am not getting pregnant میں ماں کیوں نہیںبن رہی ( Urdu English)
12۔ Pregnancy care and guide lines( Having a baby) (Urdu English)
13۔ ) Azoospermia (English
14۔ vision ) Low (English
15. Epilepsy مرگی ( Urdu English)
16۔ Schizophrenia مالی خولیہ Urdu) English)
17۔ ) Live stocks (English
18۔ Woman health (English)
19۔ Debates ذیا بیطس ( Urdu English)
20۔ Rape (Zina) Urdu’’زنا بالجبر اور زنا بالرضا ‘‘اسلامی اور بین الاقوامی قوانین کے تناظر میں
21۔ changes Historical Evolutionary تاریخی ارتقائی تبدیلیاں (Urdu)
22۔ اسلام میں جائز و نا جائز (Urdu)
23۔ Islamic Society اسلامی معاشرہ (Urdu)
24۔ Symptoms and Genital Diseases :Treatmentاعضائے تناسل کی بیماریاں(Urdu)
25۔ line ) Durand (English
26۔ ) Swine flu (English
27۔ Balochistan (English) History of
28۔ ) The Baloch) (English
29۔ جنسی اور تولیدی صحت(اُردُو)
30۔ جنسی اور تولیدی بیماریاں اور اُن کا علاج(اُردو)
31۔ قدرتی تباہ کاریوں سے بچاؤ(اُردُو)
32۔ بالوں کا نقصان (اُردو، انگریزی)
33۔ دمہ (اُردُو)
34۔ فطری اور غیر فطری نظامِ تخلیق(اُردُو، انگریزی)
35۔ اسقاطِ حمل (اُردُو انگریزی)
36۔ شاعری کی بارہ کتابیں جن میں اُنکی دوسری کتاب ’’دھندلی شام‘‘چھپ چکی ہے
37۔ بلوچستان میں چشتیہ خاندان کی آمد چھپ چکی ہے
38۔ بانجھ پن علامات و علاج چھپ چکی ہے
39۔ تخلییق اْردُو ادب (تحقیقی مقالاجات) چھپ چکی ہے
40۔ چاہتوں کے درمیاں افسانے چھپ چکی ہے
41۔ ’’دریچہ ‘‘ چھپ چکی ہے
42 ۔ مغل شہزادی جہاں آرا بیگم(اُردو)
43۔ چشتیہ خاندان) شام،خراسان، ہرات چشت شریف سے دہلی،پاکپتن اور چشتیاں شریف تک( (اُردو)
44۔ رابعہ خضداری (اُردو)
45۔ لاہوت لامکاں،بلاول شاہ نورانی(اُردو)
46۔ نہرو خاندان۔مغل شہزادے غیاث الدین غازی (گنگا دھر) سے راجیو گاندھی تک۔(اُردُو)
47۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو، لیڈی ایڈوینا ماونٹ بیٹن اور جواہر لعل نہرو(اُردُو)
48۔ قیامِ پاکستان کے بعد فوجی سیاست ومداخلت
49۔ قیامِ پاکستان اور سیاست میں خواتین کا کردار
50۔ بلوچستان میں اسٹیج ڈرامہ کے سو سال (چھپ چکی ہے)
51۔ روس۔ گناہ کے خاتمے کے منصوبے اور مسلم ریاستیں
52۔ ازبیکستان کی تاریخ تہذیب اور ثقافت
53۔ کتاب اور کاغذ کی تاریخ
54۔ بہادر شاہ ظفرعروج و زوال
55۔ شیریں،خسرو اور فرہاد
56۔ لیلیٰ مجنوں
57۔ بلوچستان میں فارسی شاعری
58۔ دکھنی زبان و ادب
59۔ مرزا غالبؔ
60۔ سفر نامہ کا ارتقاء
61۔ تذکرہ کا ارتقاء
62۔ اُردو زبان و ادب میں موجودہ تحقیق
63۔ ناول کا رتقاء
64۔ تلمیحات
65۔ سنّاٹا شاعری کی کتاب چھپ چکی ہے
66۔ وٹا منز یا حیاتین میڈیکل ریسرچ
اکرم خاورؔ کثیر جہتی شخصیت کے مالک ہیں اُردو اَدب میں اُنکی کتاب ’’ تخلیقِ اُردو ادب ‘‘ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے یہ کتاب تحقیقی مقالہ جات پر مبنی ہے ۔ اور اُن کی کتاب’’بلوچستان میں اسٹیج ڈرامہ کے سو سال ‘‘بنیادی طور پر ان کا ایم فلِ کا تھیسس ہے جو کتابی شکل میںچھپ چکی ہے۔اُ ن کے حالیہ کام کا جائزہ لیا جائے تو اسلامی، جنرل، سائنسی، میڈیکل اور تاریخی موضوعات پر اُن کا بہت سا کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اُنکی شاعری کی چوتھی کتاب ’’لمس‘‘بھی چھپ کر مارکیٹ میں آچکی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے اُن کی تحقیق پر مبنی کتاب ’’پاکستان کی سیاسی بساط ‘‘قلّات اسٹیشنرز، لاہور میں زیر طبع ہے ۔اُن کا شمار بلوچستان کے بالخصوص اور پاکستان کے بالعموم پڑھے لکھے ادیبوں اور اسکالرز میں ہوتا ہے۔
ایوارڈز/وظائف: ادب سرائے، لاہور سے گولڈ میڈل،گہوارۂ فن کوئٹہ بلوچستان سے ادبی خدمات پر خصوصی شیلڈ سے نوازا گیا۔