”آپ بیتیاں‘‘، اردو ادب کا تاریخ ساز کام – سید مظہر مشتاق

تاریخ کبھی منصوبہ بندی کرکے مرتب نہیں ہوتی بلکہ جہدِ مسلسل، انتھک محنت، قربانیوں اوراپنے کام میں جنون کی حد تک جُٹ جانے سےخود آنے والے وقتوں کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ آپ مجھے ثابت کردیں کہ آج آپ کوئی بھی تاریخ پڑھتے ہیں تو وہ مرتب کیسے ہوئی؟ کیا تاریخ کے اوراق میں جن کے نام جلی حروف سے تحریر ہیں، اُنھوں نے میز کرسی پر بیٹھ کر پہلے پیپر ورک تیار کیا ہو اور پھر تاریخ بنا دی؟ ایسا نہیں ہے بلکہ اُنھوں نے اپنا کام سچی لگن، انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد سے اسے مکمل کرنے پر دن رات قربان کیے اور وہ ایسا شاھکار بن گیا کہ تاریخ کے اوراق نے اسے اپنے دامن میں سمیٹ کر امر کردیا اور رہتی دنیا تک وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔ جانے آپ میری بات سمجھ پار ہے ہیں یا نہیں؟ یا میں آپ کو سمجھا پا رہا ہوں یا نہیں؟ بہر کیف اپنے اصل مدعا کی طرف آتا ہوں۔ آپ بیتی لکھنا بھی ایک فن ہے اور ہرکوٸی اس صنف کا حسن نبھانا نہیں جانتا. یہ آپ کی اپنی زندگی ہے جسے آپ اپنے قلم سے، اپنے الفاظ میں صفحہُ قرطاس پر بکھیرتے ہیں اور یہ اتنا آسان کام نہیں. ہر کسی کی آپ بیتی سے ہر کسی کو سروکار بھی نہیں ہوتا، مطلب یہ کہ یہ وہ صنف ہے کہ اگر اسے شائع بھی کیا جائے تو اس کی مارکیٹ میں مانگ نہ ہونے کے برابر ہوگی. مگر ایک ایسے وقت میں جب کہ کاغذ انتہائی مہنگا اور اس پر پرنٹنگ، کمپوزنگ اور بائینڈنگ کے اخراجات الگ، ایسی کتاب کی قیمت کہاں پہنچے گی جب کہ مطالعے کا شوق تباہ ہو چکا ہے اور المیہ یہ کہ موبائل نے کتاب کی اہمیت کو غارت کر رکھا ہے، تو ایسی گھمبیر صورتِ حال میں ایک ایسی کتاب جو صرف آپ بیتیوں پر مشتمل ہو اور آپ بیتیاں بھی صرف اردو ادب و ادبِ اطفال کے لکھاریوں کی ہوں تو سوچیں ایسی کتاب کون لے گا؟ مگر ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں، کراچی‘‘ کے مدیر اعلیٰ محبوب الٰہی مخمور نے نوشاد عادل کے اس انوکھے خیال پر لبیک کہا اور ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ میں آپ بیتی کی اشاعت کا سلسلہ شروع کردیا. چلیں بات یہاں تک تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بچوں کے رسالے میں ایک منفرد اضافہ ہے جس میں اور بہت سا دلچسپ مواد قاری کے لیے موجود ہے مگر 2015ء میں ان آپ بیتیوں کو یکجا کرکے اسے کتابی شکل میں آپ بیتیوں کا حصہ اول شائع کر کے محبوب الٰہی مخمور نے سب کوحیران کردیا اس جلد میں چودہ لکھاریوں کی آپ بیتیاں شامل تھیں۔ یہ میری نظر میں کام تو بہترین تھا کہ یہ آپ بیتیاں محفوظ ہوگئیں مگر سودا سراسر گھاٹے کا تھا. مگر شائد اس وقت اسے شائع کرنے والے بھی یہ امید نہ رکھتے ھوں کہ آگے چل کر اس کا کیا ردعمل آنے والا ہے. مجھے بھی کچھ ایسا ہی گمان تھا مگر اتنا ادراک ضرور تھا کہ یہ ایک بڑا کام ہے اور یہ چودہ لوگ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
ایک دن مجھے محبوب الٰہی مخمور کا فون آیا اور انھوں نے مجھے بھی آپ بیتی لکھنے کا کہا۔ میں کئی روز تک ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور پھر ہار کر ایک آپ بیتی لکھنے میں کامیاب ہو ہی گیا کہ یہ مجھے بہت مشکل کام لگا اور پھر اپنی کچھ خاص تصاویر کے ساتھ اسے میں نے حوالہ ڈاک کردیا جوکہ جلد ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ میں شائع بھی ہوگئی اس دوران ادارے کی طرف سے ”آپ بیتیاں، حصہ دوم‘‘ شائع کرنے کا اعلان ہوا کہ جلد اس پر کام شروع کررہے ہیں. اس اعلان پر مجھے خوشی سے زیادہ حیرانی ہوئی. خوشی اس بات کی کہ کچھ مزید ادیب اس صف میں شامل ہونے جارہے ہیں جو آنے والے وقت میں تھیسز لکھنے والوں کی رہنمائی کا سبب بنیں گے اور نئے لکھاری جان سکیں گے کہ ہم سے پہلے لکھنے والے کون لوگ تھے اور ان کی زندگی اور حالات سب انھیں ایک ہی جگہ دستیاب ہوں گے۔ حیرانی اس بات پر تھی کہ سراسر گھاٹے کے سودے میں محبوب الٰہی مخمور اور نوشاد عادل کے پڑنے کی وجہ محض جنون ھے؟ پھر معلوم ھوا کہ پہلے لوگ اس کی اہمیت سمجھ نہیں رہے تھے مگر اب کافی لوگ آپ بیتیاں بھیج رہے ہیں۔ وقت گزرنے لگا اور 2021ء میں آپ بیتیاں کا حصہ دوم بھی منظرِ عام پر آ گیا۔ اس میں چوں کہ میری بھی آپ بیتی شامل تھی سو یہ مجھے ڈاک سے جب موصول ھوا تو میں دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ یہ پہلی جلد سے زیادہ ضخیم تھا اور اس میں تیس ادیبوں کی آپ بیتیاں شامل تھیں جن میں نسیم حجازی، محمود شام، نذیر انبالوی، ڈاکٹر افضل حمید، نوشاد عادل، ڈاکٹر عبدالرب بھٹی، امجد جاوید، خلیل جبار، یاسمین حفیظ، عبداللہ ادیب، جاوید بسام،عارف مجید عارف، محمد ناصر زیدی، عبدالصمد پھول بھائی، نور محمد جمالی، صالحہ صدیقی، ظہورالدین بٹ، رابنسن سیموئیل گل، حاجی لطیف کھوکھراور راقم کے نام نمایاں تھے۔ حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ پہلی جلد کے مقابلہ میں آپ بیتیاں کے دوسرے حصے کو بہت پذیرائی ملی اور اسے ہر جانب سےسراہا جانے لگا اور اس کی وجہ سے پہلے حصے کی مانگ بھی بڑھی جس سے محبوب الٰہی مخمور اورنوشاد عادل کے حوصلے اور بھی بلند ھوئے اور کچھ کرنے کے جنون میں بھی مزید اضافہ ہوا اور پھر معلوم ہوا اس کے تیسرے حصے پر کام شروع ھو چکا ہے۔

میں اپنی بات آگے بڑھانے سے قبل قارئین کے گوش گزار یہ بات بھی کردوں کہ محبوب الٰہی مخمور اپنی مدد آپ کے تحت گذشتہ تئتیس سال سے بچوں کا رسالہ ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ بلا تعطل شائع کررہے ہیں۔ محبوب الٰہی مخمور ایم اے صحافت اور ایم اے اردو ہیں اور انھوں نے ادب اطفال کے لیے جیسے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ آج بھی ”انوکھی کہانیاں‘‘ پوری آب و تاب سے بلا ناغہ آرہا ہے. یہ وہ پرچہ ہے جس نے دعوة اکیڈمی اور یونیسیف سے 1993ء سے 2010ء تک ہربار ملک بھر میں اول تا سوم پوزیشن کے ایوارڈ معہ نقد انعام حاصل کرکے خود کو منوایا ہے. خود محبوب الٰہی بھی کچھ کم نہیں ہیں. وہ خود دوبار ”ٹوٹ بٹوٹ مصنف ایوارڈ‘‘ اس کے علاوہ متعدد اعزازات اور اپنی کتابوں پر سات صدارتی ایوارڈز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ آپ عرصہ 3 سال سے ”کتاب نامہ‘‘ میں بطور مدیر منتظم، ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں. ”کتاب نامہ‘‘ پر محبوب الٰہی مخمور کے حوالہ سے تحاریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہیں. مگر میرا مضمون ان پر نہیں ہے. یہ صرف میں نے مختصراً تعارف اس لیے لکھ دیا کہ جو خود اپنے میدان کا شیر ہو اور ہر حال میں اپنے کام کو جاری رکھے تو ان کی شائع کردہ آپ بیتیوں کی کیا اہمیت ھوگی. نوشاد عادل کی بات کی جائے تو سمجھیں آئیڈیاز کی مشین ہیں اور لکھنے میں جیسے کوئی جن رائٹر. اور ان دونوں کی یہ خوبی ہے کہ یہ وہ کام کرتے ہیں کہ اپنے ساتھ متعدد لوگوں کو بھی تاریخ کا حصہ بنا رہے ہیں. ان دونوں پر لکھنے کے لیے پورا الگ سے کالم بھی کم پڑ جائے گا۔
بات ہو رہی تھی ”آپ بیتیاں‘‘ کی، ابھی میرے ہاتھ میں ”آپ بیتیاں، حصہ سوم‘‘ ہے جوکہ 2024ء میں شائع ہوا ہے۔ اور یہ بھی ایک خاصی ضخیم جلد ہے جس میں مزید تئیس لکھاریوں کی آپ بیتیاں شامل ہیں جن میں ڈاکٹر مبشر سعید باجوہ، سید شاہ نواز اعظم، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، مظہر کلیم ایم اے، ضیاءالحسن ضیاء، شاھد علی سحر، تنویر پھول، محمد عادل منہاج، جدون ادیب، محمد مشتاق حسین قادری، رانا محمد شاھد، نشید آفاقی، محمد ارشد سلیم، ریحانہ اعجاز، لیاقت علی، سراج احمد تنولی، رفیق زاھد، غلام محی الدین ترک، فدا شاھین بھٹی، سید رفیع الزماں، اشرف سہیل، ظفر محمد خان ظفر نمایاں ہیں اور اب اس کے چوتھے حصے پر کام شروع ھونے کوہے. تو میری رائے ہے کہ جن قلم کاروں نے اب تک اپنی آپ بیتی نہیں لکھی، وہ پہلی فرصت میں اپنی آپ بیتی لکھے اور ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ میں بھیج دیں تاکہ آنے والے حصوں میں وہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں۔ میری معلومات کے مطابق لاہور سے کوئی طالب علم آپ بیتیاں پر ایم فل کرنے کی تیاری کررہا ہے اور جس کی نگران ڈاکٹر فضلیت بانو ہیں تو اب آپ کو میری بات سمجھ آگئی ھوگی کہ کوئی بھی چیز تاریخ کیسے بنتی ہے۔ اس سے قبل ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ کو یہ اعزاز حاصل ھوچکا ہے کہ اس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جا چکا ہے اور اب آپ بیتیاں خود کو منوانے جارہی ہے۔ گو کہ آپ بیتیاں کی اب تک تین ضخیم جلدیں لکھاریوں کی آپ بیتیوں اور ان کی سیکڑوں تصاویر سے سجی منظر پر آچکی ہیں اور مزید جانے کتنی جلدیں آئیں مگر یہ طے ھوگیا کہ یہ جلدیں تاریخی اہمیت کا کام ہے. منفرد کام ہے اور اردو ادب و ادبِ اطفال پر تحقیق کرنے والے ان جلدوں سے اس وقت کے قلم کاروں اور ان کے کام کو جان سکیں گے اور انہیں ایک ہی جگہ مکمل کیا ہوا کام مل جائے گا جو ان کی تحقیق کو آسان بنا دے گا۔ امید ہے میری تحریر پڑھ کر آپ جان سکیں گے کہ کس طرح جہد مسلسل آگے چل کر تاریخ بن جاتی ہے. کام تو ان دونوں کے بہت ہیں اور سبھی انوکھے، منفرد اور لاجواب مگر میں آپ بیتیوں کے بارے میں لکھ رہا ہوں تاکہ مزید لکھاری بھی اپنی آپ بیتی لکھیں اور حصہ بن جائیں اس تاریخ کا اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے اردو ادب میں محفوظ کرالیں۔

”آپ بیتیاں‘‘، اردو ادب کا تاریخ ساز کام – سید مظہر مشتاق” ایک تبصرہ

  1. محبوب الٰہی مخمور ، مدیر اعلیٰ انوکھی کہانیاں کراچی says:

    ثاقب بٹ صاحب کی یہ خوبی ہے کہ وہ اچھے کام کی پذیرائی کرتے ہیں۔ اردو ادب اور ادب اطفال سے انھیں عشق ہے اس لئے وہ اس کو نمایاں کرنے کے لئے محنت کرتے ہیں اور نمایاں کرتے ہیں۔ بہت شکریہ ثاقب بٹ صاحب بیت شکریہ مظہر مشتاق۔۔ محبوب الٰہی مخمور مدیر اعلیٰ انوکھی کہانیاں کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں