احمد وقاص کا دوسرا شعری مجموعہ ”غبارِ حیرت‘‘ کوئٹہ کے ادبی افق پر ایک ایسے شاعر کی موجودگی کا اعلان کرتا محسوس ہوتا ہے جس کا لب و لہجہ ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ان کی غزلیں روایت اور جدت کے درمیان ایک ایسا منظر تخلیق کرتی ہیں جو نہ صرف کلاسیکی رچاؤ سے بھرپور ہے بلکہ جدید حسیات و جذبات کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ ان کے ہاں غزل کی روایت زندہ اور تابندہ ہے مگر اس میں عصری آہنگ بھی خوبصورتی کے ساتھ شامل ہے، جس کی وجہ سے ان کا کلام ایک طرف تو دلی کی گلیوں کی یاد دلاتا ہے تو دوسری طرف کوئٹہ کے پہاڑوں کی وسعتوں میں گونجتا محسوس ہوتا ہے۔
احمد وقاص کی غزل گوئی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جذبات کو انتہائی نفاست کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے ہاں محبت کی کیفیات بیان کرنے کا انداز روایتی نہیں، بلکہ ایک نئی جہت رکھتا ہے۔ وہ عشق کے تصور کو صرف رومانوی انداز میں پیش کرنے کے بجائے اسے وجودی مسائل سے بھی جوڑتے ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:
جب خیالِ یار میں نہیں رہا
میں کسی شمار میں نہیں رہا
اے نگاہ یار تیری خیر ہو
آئینہ غبار میں نہیں رہا
یہاں خودی کے زوال کا احساس اس طرح بیان ہوا ہے کہ محبوب کی یاد سے محرومی صرف ایک جذباتی کیفیت نہیں رہتی، بلکہ ایک فلسفیانہ سوال بن کر سامنے آجاتی ہے۔ آئینے کا غبار آلود ہونا دراصل خود شاعر کی ذات کے دھندلا جانے کی علامت معلوم ہوتا ہے۔
موضوعات کے اعتبار سے احمد وقاص کا دائرہ کار وسیع اور متنوع ہے۔ وہ محبت، ہجر، فراق جیسے روایتی موضوعات کو تو برتتے ہیں ہی، لیکن ان میں سماجی بے چینی، انسان کی تنہائی، اور زمانے کی بے رحمی جیسے جدید موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:
اور امکان کو وسعت نہیں ملنے والی
اب میری آنکھ میں حیرت نہیں ملنے والی
یہاں زندگی کے امکانات کے سکڑتے ہوئے دائرے کو بیان کیا گیا ہے۔ آنکھ سے حیرت کے غائب ہونے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ انسان کا تجسس، اس کی دریافت کی خواہش، وقت کے ساتھ ماند پڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ جدید انسان کی بے حسی اور مایوسی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔
احمد وقاص کے ہاں کلاسیکی رنگ بھی نمایاں ہے، خاص طور پر غزل کے روایتی استعاروں اور تشبیہات کو وہ نئے تناظر میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ایک شعر جس میں گھر کے در و دیوار کو وحشت کا حصہ بنایا گیا ہے، اس میں کلاسیکی غزل کی رومانوی فضا موجود ہے، مگر بیان کا انداز جدید ہے:
مجھ کو وحشت سے گریزاں نہیں ہونے دیتے
میرے گھر کے درودیوار بھی ایسے ہیں کہ بس
یہاں گھر کی چار دیواری جو عام طور پر پناہ گاہ سمجھی جاتی ہے، وہی شاعر کو وحشت سے بچنے نہیں دیتی۔ اس میں جدید انسان کی تنہائی اور گھر کی بے معنویت کا اظہار بھی جھلکتا ہے۔ اداسی اور بے بسی شاعر کے کلام کا ایک اہم حوالہ ہے، لیکن وہ اسے کبھی بھی محض جذباتی ہنگامے تک محدود نہیں ہونے دیتے۔ ان کے ہاں یہ کیفیت ایک فکری گہرائی بھی رکھتی ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیے:
دائم آباد غم بلاتا ہے
اے دیار طرب اجازت دے
یہاں ”دائم آباد غم‘‘ کا تصور صرف ایک جذباتی حالت نہیں، بلکہ ایک مستقل حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ شاعر دیار طرب سے اجازت مانگ رہا ہے، گویا وہ خوشی کے مقام سے بھی غم کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ یہ ایک ایسی شعری جمالیات ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
شعری تکنیک کے اعتبار سے احمد وقاص کا اسلوب نہایت پختہ ہے۔ ان کے ہاں لفظوں کا چناؤ، بحروں کا استعمال، اور قافیے کی نزاکت غزل کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ وہ سادگی اور پیچیدگی کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کلام عام قاری اور ناقد دونوں کے لیے یکساں دلچسپی کا حامل ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر احمد وقاص کا یہ دوسرا مجموعہ ان کی فنکارانہ پختگی کا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف روایت کی گہری پہچان نظر آتی ہے، وہیں جدید زندگی کے مسائل کو بھی وہ بڑی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ یہ مجموعہ نہ صرف غزل کے شائقین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے، بلکہ یہ اردو شاعری میں ایک نئے اور منفرد رنگ و آہنگ کا اضافہ بھی کرتا ہے۔