اردو ادب میں مزاحیہ شاعری کا ایک خاص مقام ہے جو قاری کو محض تفریح ہی نہیں بلکہ زندگی کی تلخیوں کو خوشگوار انداز میں بیان کرنے کا فن سکھاتی ہے۔ مزاحیہ شاعری کی روایت ہمیں اکبر الہ آبادی، دلاور فگار، انور مسعود، سید ضمیر جعفری اور دیگر ممتاز شاعروں کی تخلیقات میں نظر آتی ہے۔ اسی روایت کو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف مزاحیہ شاعر رحمت اللہ عامر نے اپنی کتاب ”جلیبیاں‘‘ میں بخوبی نبھایا ہے۔
رحمت اللہ عامر کا نام اردو مزاحیہ شاعری میں ایک منفرد پہچان رکھتا ہے۔ ان کا اندازِ سخن شگفتہ، سادہ اور روزمرہ کے مسائل پر مبنی ہوتا ہے۔ وہ اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے زندگی کے عام مسائل کو خوشگوار پیرائے میں پیش کرتے ہیں، جس سے قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ ان کی شاعری میں پوشیدہ طنز و مزاح کو بھی محسوس کرتا ہے۔ ”جلیبیاںط بھی اسی رنگ میں ڈوبی ہوئی ایک بہترین کتاب ہے۔
”جلیبیاں‘‘ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جس میں مزاح، طنز، روزمرہ کی زندگی کی تلخ حقیقتیں اور انسانی رویے بڑی خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں۔ کتاب کا نام ”جلیبیاں‘‘ بذاتِ خود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زندگی میں تلخیاں بھی ہیں اور شیرینی بھی، اور دونوں کا امتزاج ہی حقیقتِ حیات ہے۔
عامر صاحب کے اشعار میں الفاظ کی سادگی اور عام فہم انداز نمایاں ہے، جو قاری کو متاثر کر دیتا ہے۔ ان کی شاعری میں طنز کا پہلو بہت نمایاں ہے، مگر وہ کسی کی دل آزاری کے بجائے نہایت خوش طبعی کے ساتھ پیش کرتے ہیں. ”جلیبیاں‘‘ میں عام زندگی کے چھوٹے چھوٹے مگر اہم مسائل جیسے مہنگائی، سیاسی حالات، ازدواجی زندگی، معاشرتی ناہمواریوں اور انسانی کمزوریوں، سماجی برائیوں کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اشعار ملاحظہ فرمائیں:
میں تجھ کو شاہ جہاں سی محبتیں دوں گا
تو فخر و ناز بھی ممتاز جیسے کرکے دکھا
ہزار تاج محل تجھ پہ وار دوں بیگم
بس اب کسی بھی طریقے سے جلد مر کے دکھا
یہ شعر ازدواجی زندگی کے عمومی مسائل کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتا ہے، جس میں طنز کی کاٹ بھی ہے اور مزاح کی چاشنی بھی۔ اسی طرح خانگی زندگی کے بارے میں یہ قطعہ بھی لاجواب ہے:
بغیر بیوی کے کامل بشر نہیں ہوتا
گزارا ساتھ بھی رہ کر مگر نہیں ہوتا
رموز سیکھ لیے جب سے رن مریدی کے
ہمارے گھر میں کبھی شور و شر نہیں ہوتا
کتاب میں شامل ان کے یہ اشعار موجودہ دور کے معاشی حالات پر طنزیہ تبصرہ پیش کرتے ہیں، مگر عامر کی خوبی یہ ہے کہ وہ تلخ حقیقتوں کو بھی خوشگوار بنا دیتے ہیں۔
کوتوالی سے راہزنی سیکھی
شر سیاست کے بام سے سیکھا
جبر سیکھا خواص سے ہم نے
صبر کرنا عوام سے سیکھا
مزاحیہ شاعری کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ معاشرتی برائیوں کو خوشگوار پیرائے میں بیان کرتی ہے، تاکہ قارئین نہ صرف ان پر ہنس سکیں بلکہ ان کے مضمرات پر بھی غور کریں۔ رحمت اللہ عامر کی شاعری میں سماجی ناانصافیوں، سیاست دانوں کی دوغلی پالیسیوں، اخلاقی زوال اور معاشرتی تضادات پر لطیف طنز ملتا ہے، جو قاری کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاح کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی کو نشانہ بنانے کے بجائے عمومی رویوں کو زیر بحث لاتے ہیں، جس سے ان کی شاعری میں وسعت اور آفاقیت پیدا ہو جاتی ہے۔
بجلی کے بنا بھی سو لیں گے
بستر کو بچھا کر آنگن میں
پتلی کا تماشا دیکھیں گے
ہم شمع جلا کر آنگن میں
سنجیدہ شاعری میں جذبات کی گہرائی، فکری وسعت اور الفاظ کی ندرت زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ یہ شاعری قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے، اس کے جذبات کو جھنجھوڑتی ہے اور زندگی کی پیچیدگیوں کا شعور بخشتی ہے۔ اس کے برعکس، مزاحیہ شاعری زندگی کی تلخیوں کو ایک خوشگوار انداز میں پیش کرنے کا فن ہے۔ یہ نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہے بلکہ زندگی کے سنجیدہ مسائل کو قاری کے سامنے اس انداز میں رکھتی ہے کہ وہ ان پر ہنستے ہنستے سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
لے کے میک اپ کا سہارا حسن کو
اپنے ہاتھوں کھو رہی ہیں عورتیں
پارلر میں شوہروں کے خون سے
ری کنڈیشن ہو رہی ہیں عورتیں
ادبی نقطۂ نظر سے مزاحیہ شاعری، سنجیدہ شاعری کے مقابلے میں زیادہ مشکل صنف ہے، کیوں کہ اس میں شاعر کو نہ صرف قاری کو محظوظ کرنا ہوتا ہے بلکہ تخلیقی انداز میں حقیقتوں کو بھی اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ ایک معمولی سا عدم توازن مزاح کو سطحی یا بے اثر بنا سکتا ہے اور پھرایک بے ڈھنگا پھکڑ پن جنم لیتا ہے۔ ایک اچھی مزاحیہ نظم یا غزل وہی ہوتی ہے جس میں نہ صرف مزاح ہو بلکہ تہہ داری اور معنویت بھی ہو۔ اس کے علاوہ، مزاحیہ شاعری میں زبان و بیان کا چٹخارہ، برجستگی اور روزمرہ کے محاوروں کا برمحل استعمال اسے مزید مؤثر بناتا ہے۔
کپڑے تو میں نے لے لیے قسطوں یہ خان سے
تاکہ کچھ حاسدوں کی میں تذلیل کر سکوں
اپنی تو عید پڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے
جوتے بھی عید گاہ سے تبدیل کر سکوں
رحمت اللہ عامر نے ”جلیبیاں‘‘ میں انہی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری شامل کی ہے، جس کی بدولت یہ مجموعہ اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کی شاعری سے ان کا اپنا منفرد انداز جھلکتا ہے:
اب نہیں پکتی گھروں میں روٹیاں
یہ نہیں کہ آگئیں خوشحالیاں
بیٹھ سکتی ہی نہیں چولہے کے ساتھ
اس قدر نازک ہیں اب گھر والیاں
”جلیبیاں‘‘ ایک بہترین مزاحیہ شعری مجموعہ ہے جو نہ صرف دل بہلاتا ہے بلکہ معاشرتی مسائل پر طنزیہ تبصرہ بھی کرتا ہے۔ رحمت اللہ عامر نے اپنے منفرد اسلوب اور شگفتہ بیانی سے اردو مزاحیہ شاعری میں ایک خاص اضافہ کیا ہے۔ ان کی شاعری قاری کو نہ صرف ہنسنے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے، جو کہ کسی بھی اچھے مزاحیہ شاعر کی پہچان ہے۔