وسیم جبران کا مجموعۂ کلام ”تم سے کہنا تھا‘‘ جدید اردو شاعری میں ایک خوشگوار اضافہ ہے، جو ان کے شعری اظہار کی تازگی، گہرائی اور فکری وسعت کو نمایاں کرتا ہے۔
وہ مجھ سے کج رویوں کی توقع کر نہیں سکتے
کہ میں حرمت کا قائل ہوں میں رشتے یاد رکھتا ہوں
یہ مجموعہ محبت، جدائی، حیات و کائنات کے اسرار، انسانی نفسیات اور عصری حسّیات جیسے موضوعات کو نیا لب و لہجہ عطا کرتا ہے۔ وسیم جبران کی غزلیں روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید حسیت سے جُڑی ہوئی ہیں، جہاں کلاسیکی رنگ بھی جھلکتا ہے اور جدید طرزِ فکر بھی نمایاں رہتا ہے۔ ان کا کلام نہ صرف لطیف جذبات کا حامل ہے بلکہ اس میں فکری گہرائی بھی موجود ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک غزل میں وہ سخن سرا ہوتے ہیں کہ:
نکلنا شہر دل سے تھا تو مجھ کو بھی بتا دیتے
دعا جو دل میں تھی میرے وہ تیرے ساتھ کرنی تھی
چلو اچھا ہے جاتے وقت جو مڑ کر نہیں دیکھا
وگرنہ آنسوؤں کی آنکھ نے برسات کرنی تھی
ان کی غزلوں کی سب سے بڑی خوبی ان کے سادہ مگر پرتاثیر اشعار ہیں، جو پیچیدہ خیالات کو عام فہم مگر دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں:
لٹتے آئے ہیں صدیوں سے ہم ہر دور کے رہبر سے
چہرے بدلے ہیں لیکن کردار پرانے والا ہے
وسیم جبران کے اشعار میں وہ نرمی اور روانی ہے جو دل میں اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کی غزلوں میں روایتی عشق کے ساتھ ساتھ ایک داخلی کرب بھی محسوس ہوتا ہے جو انسانی تجربات کے گہرے مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ محبت کو محض جذباتی وابستگی تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے ایک فکری تجربے میں ڈھال دیتے ہیں، جہاں عاشق اور معشوق کے درمیان مکالمہ محض محبت کی داستان نہیں بلکہ ایک وجودی تجربہ بن جاتا ہے:
جس کا ہے انتظار وہ منظر بھی دکھا دے
رنگ شفق دیا ہے تو رنگ حنا بھی دے
مجھ کو بھی مری ماں کی طرح بولنا سکھا
تو نے زباں جو دی مجھے حرف دعا بھی دے
وسیم جبران کے ہاں الفاظ کا چناؤ نہایت نپا تُلا اور بامعنی ہے۔ وہ غیر ضروری تصنع سے گریز کرتے ہیں اور سادہ مگر گہرے الفاظ کے ذریعے جذبات کو مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں ایک مخصوص موسیقیت اور روانی ہے جو انہیں یادگار بنا دیتی ہے:
جو بس میں ہو اپنے تو اسے دل سے بھلا دیں
لیکن وہ فسوں سے بھی نکلنے نہیں دیتا
سائے کی طرح ساتھ مرے چلتا ہے جبران
چاہوں بھی تو وہ رستہ بدلنے نہیں دیتا
ان کے ہاں محبوب کا تصور محض ایک روایتی حسن کا پیکر نہیں بلکہ ایک فکری اور داخلی تجربہ ہے جو انسان کی ذات اور کائنات کے باطن سے جڑا ہوا ہے۔ مجموعے میں شامل نظموں کی بھی اپنی منفرد حیثیت ہے۔ ان کی نظمیں داخلی کیفیات اور خارجی مشاہدات و مطالعات کا ایک ایسا امتزاج پیش کرتی ہیں جو قاری کے دل و دماغ میں گہری چھاپ چھوڑ دیتا ہے۔ ان کی نظموں میں زندگی کی ناہمواریوں، وقت کی بے رحمی، اور انسانی احساسات کی پیچیدگیوں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ان کی نظموں میں الفاظ کی نشست و برخاست اس قدر متوازن اور جاذبِ نظر ہے کہ ہر سطر معنوی گہرائی کا ایک مکمل باب محسوس ہوتی ہے۔ ذرا ان کی نظم معصومیت کے کچھ اشعار دیکھیں:
میری پیاری سی شہزادی
آنکھیں میچ کے بولی مجھ سے
پاپا سیر کو جائیں گے نا
آج مجھے قلفی کھانی ہے
ٹافی چپس بھی اور نمکو بھی
اور پھر پارک میں کھیلیں گے ناں
یہ مجموعہ وسیم جبران کے تخلیقی شعور اور ان کی فکری بصیرت کا بہترین اظہار ہے۔ ان کے اشعار میں محبت کے جذباتی پہلو کے ساتھ ساتھ زندگی کی ناہمواریوں کا شعور بھی ملتا ہے، جو انہیں روایتی شاعری سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں موجود لطافت اور گہرائی قاری کو دیر تک اپنے سحر میں رکھتی ہے اور ایک نئی فکری دنیا سے روشناس کراتی ہے۔ تم سے کہنا نہ صرف جدید اردو شاعری کا ایک خوبصورت سنگِ میل ہے بلکہ یہ قاری کے احساسات میں دیرپا تاثیر قائم رکھنے کی کامل صلاحیت بھی رکھتا ہے۔