’’حاضر اللہ سائیں‘‘ ایک شاعر کا سفرنامہ – حسنین نازشؔ

سفر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’مسافت کرنا‘‘ کے ہیں۔ سفری داستان کو لکھنا سفرنامہ کہلاتا ہے جس کا مقصد قارئین کو اپنے سفری حالت و واقعات سے آگاہ کرنا ہے۔ عام قاری کے اندر دیارِ غیر کے بارے میں آگہی فرائم کرنا اور سفری داستان گوئی سفرنامے کے مقاصد ہو سکتے ہیں۔
سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔ اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آپ بیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح پیش کرتا ہے کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی۔

میرے ہاتھ میں ارشد ملک نے خوب صورت سر ورق کا حامل سفرِحج بعنوان ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ تھماتے ہوئے ایک نوجوان شاعر حسن گمان نے تصویر لی۔ یہ وہی سفر نامہ ہے جس کا تذکرہ ارشد ملک مجھ سے درجنوں بار کر چکے تھے۔ ’’حسنین نازش! میں 2012ء میں حج کرنے گیا تھا اور نوٹس لیے تھے مگر ابھی تک اسے کتابی شکل نہیں دے سکا۔۔۔ حسنین نازشؔ! سیکڑوں صفحات کو مواد اکھٹا کر لیا ہے مگر دل جمعی کے ساتھ بیٹھ کر تدوین کے لیے وقت نہیں پاتا ہوں۔۔۔ آج کل رات کے پچھلے پہر بیٹھ کر سفرنامے کو ترتیب دے رہا ہوں، امید کرتا ہوں کہ جلد ہی سمیٹ لوں گا۔۔۔ اب تو سفرنامہ قریب قریب ترتیب پا چکا ہے۔ میں اس سفرنامے کا مواد اپنی والدہ کو سناتا ہوں۔ والدہ کو جو جو باب ، ورق اور جملہ اچھا لگتا ہے اس پر شاباشی دیتی ہیں اور میں اسی صفحے اور جملے کو حروف آخر سمجھ کر مسودے کو آخری شکل دے رہا ہوں۔۔۔‘‘ یوں اس انداز سے سفر نامہ ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ میرے گوش گزار ہوتا رہا۔ ایسی ہر ہر ملاقات میں ارشد ملک مجھ سے درخواست کرتے رہے کہ میں ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ کے لیے فلیپ لکھوں۔ میں حامی بھرتا اور مسودے کی کاپی کا خواست گار ہوتا جو وعدہ حور کی طرح کبھی وفا نہیں ہو سکا. یوں مسودہ موصول نہ ہونے کے سبب میرے حروف چند ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ کا حصہ نہ بن سکے۔ (اس حد تک گلہ مجھے بہر کیف ارشد ملک سے ہے)۔
خیر یوں سفر نامہ میرے ہاتھ لگا۔ سب سے پہلے نظر یں سفرنامے کے ابواب پر پڑیں تو شدت سے احساس ہوا کہ سفر نامہ نگار وارفتگی سے اس دینی فریضے کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلا ہے۔ اس کا یہ سفرِحج اس کے اور اس کے احباب کے خوابوں کی عملی تعبیر ہے جو اسے اور اس کے احباب کو وقتاََ فوقتاََ آتے رہے۔ ’’خواب اور حج کا تعلق، ایک جیسے خوابوں کی تقسیم اور خواب اور اسلامی نقطہ نظر‘‘ جیسے عنوانات اس کی کڑیاں ہیں۔ بقول شاعر:
روز ان سے خوابوں میں ملاقات ہوا کرتی تھی
خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوا کرتے تھے
ایک پکے شاعر کے قلم سے خاصا ضخیم سفر نامہ وصول ہوا تو احساس ہوا کہ اگر شاعر بھی میدانِ نثر میں طبع آزمائی کریں تو نثری صنف شعری پرکاری سے مزّین ہوجاتی ہے۔ جگہ جگہ ضروری (اور غیر ضروری) طور پر اشعار سے نثر پارے کو مسجّع کیا جاتا ہے ۔ یوں نثر کی بھٹی پر جب شعر کی مدھم مدھم آنچ پڑتی ہے تو تحریر کا رنگ کبھی پھیکا نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی مثالیں جا بجا ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ کے اوراق میں نظر آتی ہیں۔ یوں سفرنامہ نگار جو حقیقتاََ ایک منجھا ہوا شاعر بھی ہے، کسی طور اپنے قلم کو شعری سیاہی میں ڈبونا نہیں بھولا۔ کبھی غالب کا شعر:
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی

داغ دہلوی کا یہ شعر عمدگی سے نثرپارے میں پرویا گیا:
دی شبِ وصل مئوذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

سفرنامہ نگار جب سفر حج کی تیار ی کر رہا ہے اور اس کے ذہن و قلب میں حرمین شرفین کے نظارے طواف کر رہے ہیں تو اس لمحے میرؔ کا یہ شعر اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے ارشد ملک نے ایسے مقامِ خاص پر درج کیا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا میرؔ بھی شاید کعبے کا قصد کرنے کو تھے جو یہ شعر کہا:
میرؔ جب سے گیا ہے دل تب سے
میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی

اسی طرح جب بارِ گناہ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے شاعر عازمِ ِکعبہ ہوا تو عدم کا یہ شعر اس کے قدم روک لیتا ہے:
کس قدر بوجھ تھا گناہوں کا
حاجیوں کو جہاز ڈوب گیا

حج کے تیسرے دن کی بپتا کا آغاز سفرنامہ نگار سورۃ انفال کی اس آیت کے ترجمے سے کرتا ہے:
’’بے شک سب جانوں میں سے بد تر اللہ کے نذدیک وہی بہرے گونگے ہیں جو نہیں سمجھتے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی منیر نیازی کا شعر:
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

الطاف حسین حالیؔ اور اقبال کے اشعار کو بھی حسن ترتیب سے ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ میں جگہ دی۔ اور ارشد ملک نے جا بجا اپنی حمدیہ اور نعتیہ شاعری کا بھی تڑکا لگایا۔ صرف ایک مثال پیش خدمت ہے:
روزنِ دل سے نور پھوٹا اور
میں مدینے کی سمت بڑھتا گیا
جس کو جس دم بلاوا آجائے
سفرنامہ دراصل ایک با شعور سیّاح کے ان تجربات، مشاہدات اور وارداتِ قلبی کا نچوڑ ہوتا ہے جو اس نے دورانِ سفر محسوس کئے ہوں اور اسے سفر کے دوران یا اختتام سفر کے بعد رقم کیا ہو، ڈاکٹر احمدی لاری تحریر کرتے ہیں:
’’سفرنامہ لکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سیّاح کا مشاہدہ تیز ہو اور تخیل بھی قوی ہو یعنی وہ صاحب بصارت بھی ہو اور صاحب بصیرت بھی، ان صلاحیتوں کے بغیر سفرنامہ لکھنا ممکن نہیں ہے.‘‘ تخیل اور وارداتِ قلبی کی کئی ایک مثالیں سفر نامے ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ میں ملتی ہیں۔ صرف ایک مثال ہی سمجھنے کے لیے کافی ہے:
’’آپ کو سینکڑوں ہزاروں دیوانے ایسے مل جائیں گے جو شہرِ نبیﷺ کی خاک کو سرمہ مانتے ہیں، جو ننگے پاؤں اپنے شہر سے روانہ ہوئے، ان گنت مصیبتوں سے ان کا سامنا ہوا، لباس تار تار ہو گیا، پیر لہو لہاں ہو گئے مگر جب ان کی نظر آقائے دوجہاں حبیب کبریاﷺ کے روضے پر پڑی، وہ اپنے غم بھول گئے، اپنے آنسوؤں پر ان کی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ یا رسول اللہﷺ ، یا رسول اللہﷺ کہتے ہوئے وہ سنہری جالیوں سے لپٹ گئے۔ اپنے اپنے غم آقاﷺ کو سُنا کر انہیں محسوس ہوا کہ زندگی کے تمام بوجھ ہلکے ہو گئے۔ بارگاہِ رسالت میں حاضری کا شرف انہیں بھی حاصل ہو گیا۔ آقائے دو جہاںﷺ نے بے چین دلوں کو سکون سے بھر دیا اور دو جہانوں میں نصرت و کامرانی کی بشارت دے دی۔‘‘
سفرنامہ نگار کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ اس کیفیت کو بھی سفرنامے میں سمو دے جس سے وہ گزرتا ہے. بہ الفاظ دیگر سفرنامہ صرف تاریخی واقعات اور جغرافیہ کے اعداد و شمار سے پُر نہ ہو جائے بلکہ ایک ا چھا سفرنامہ وہ کہلاتا ہے جس میں جغرافیائی کیفیت و تاریخی واقعات کے ساتھ فطری مناظر کے اسرار کی کیفیت بھی مکمل طور پر سامنے آتی ہو۔
سفر نامہ ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ میں ایسی مثالی جا بجا ملتی ہیں جہاں تاریخی واقعات کو حالیہ واقعات کے ساتھ عمدگی سے جوڑا گیا ہے۔ سفرنامے کے باب ’’من و سلویٰ‘‘ میں سفرنامہ نگار لکھتا ہے :
میرے دل میں ہر روز ناشتے کی میز دیکھ کر من و سلویٰ کا خیال آتا تھا۔۔۔ ایک وقت آیا جب وہ من و سلویٰ سے تنگ آگئے اور انہوں نے اپنی طبیعت کے مطابق نئی نئی ڈیمانڈز کرنا شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ وہ خدا سے بھی تنگ آگئے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ نے انہیں جہاد کے لیے کہا تو وہ بولے:
’’اے موسیٰ ؑ آپ اور آپ کا رب جہاد کرو۔ فتح کے بعد ہم آ جائیں گے۔‘‘
اس گستاخی کی پاداش میں وہ بے گھر کر دیے گئے۔ بنی اسرائیل چالیس سال تک صحرا میں بھٹکتی رہی. یہاں تک کہ ان سے موسیٰ ؑ جیسی عظیم نعمت بھی چھین لی گئی۔۔۔ الخ
ایک اچھے سفرنامے کے لیے عمدہ اسلوب اور تاثرات و مشاہدات کاسلیقہ مند اظہار بھی ضروری ہے۔اگرچہ سفرنامے کے لیے کوئی اسلوب مقرر نہیں کیا گیا، سفرنامہ نگار اپنے مزاج، تجربات اور تخلیقی صلاحیت کے مطابق سفرنامے کا اسلوب خود متعین کرتا ہے۔ گویا سفرنامہ نگار آزاد ہے، جس طرح چاہے اسے تحریر کرے لیکن لازماََخیال رکھے کہ سفرنامہ سفرنامہ رہے، داستان یا ناول یا افسانہ نہ بن جائے، سفرنامے میں یقیناً پُر اسراریت اور دلچسپی کا سامان ہوتا ہے، لیکن غیر ضروری رنگین بیانی سفر نامہ کو مجروح کر دیتی ہے۔
سفرِ حج میں چوں‌کہ جذباتی وارفتگی ہوتی۔ قلبی اور روحانی تشنگی کے تذکرے ہوتے ہیں۔ بارِ عصیاں دوش پر اٹھائے ہوئے سفرنامہ نگار جب اللہ سائیں کے حضور اپنے گناہوں کی پوٹلیوں کی گرہیں کھولتا ہے تو وہاں رنگین بیانی کی تذکرے کہاں ہوتے ہیں؟ وہاں تو جب قلم چلتا ہے تو طوافِ حرم کی آرزو، بیگم کے آنسو اور میں، اللہ والے سے ملاقات، خدا سے تجارت، مست ملنگ اور دھمال، بادل بن جاؤں، قبولیت کی گھڑیاں میری تلاش میں، مجھے ہے حکمِ اذاں، میرادل بھی تو اک مدینہ ہے، میں نے بت توڑ ڈالے، آنکھوں میں تیرتی مسجدیں، میں جنت البقیع میں دفن ہو گیا اورکرم کی ندیاں وغیرہ جیسے ابواب تحریر ہوتے ہیں۔
ایک اچھے سفرنامے کی خوبی یہ بھی ہونی چاہئے کہ اس کے مطالعے سے قاری بھی سیاح کے ساتھ سفر میں شامل ہو جائے، پڑھنے والے کو محسوس ہو کہ وہ صرف پڑھ نہیں رہا ہے بلکہ وہ بھی سفرکر رہا ہے، اور تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔یہی حال ہمیں ارشد ملک کے سفر نامے ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ میں ملتا ہے۔ مصنف نے بیانیہ انداز کو ایسے احسن طریقے سے زیب قلم کیا کہ واقعی قاری بھی فیوض و برکات کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو:
’’میں نے چشمِ تصور سے دیکھا پورا مکہ انہیں صادق اور امین کہنے کے باوجود ان کی جان کا دشمن ہو گیا ہے۔ میں نے دیکھا ایک عورت تاجدارِ عالمﷺ پر گلی میں گزرتے ہوئے کوڑا پھینک رہی ہے۔ میں نے دیکھا وہی عورت بیمار ہے اور سرکارِ دوعالم ﷺ اسے اپنے ہاتھوں سے دوسا پلا رہے ہیں۔ اس کے گھر جھاڑو دے رہے ہیں۔ میں نے دیکھا میرے نبی ﷺ ایک پہاڑ پر حق بیان کر رہے ہیں مگر جن کے دِلوں، زبانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دی گئی تھی وہ خاموش کھڑے پلید ارادے بُننے میں مصروف ہیں۔ میری چشمِ تصور نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا۔ نہ جانے کتنے معجزات تھے جو میری آنکھوں میں سمٹ آئے تھے۔‘‘
آخر میں میں یہ کہوں گا کہ ارشد ملک کا شعری سفر، سفر نامہ ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ کی صورت میں نثر نگاری کی حدود میں شامل ہو چکا ہے۔ نثری میدان میں ارشد ملک کا اٹھایا جانے والا یہ پہلا قدم اللہ مبارک کرے۔ سفر نامہ ’’حاضر اللہ سائیں‘‘ ارشد ملک کا نہ صرف نثری سفر کا آغاز ہے بلکہ اللہ کے حضور اپنی نثری کاوش پیش کرنے کی بھی جسارت ہے۔ ارشد ملک اپنا سفرنامہ اٹھائے اللہ سائیں کے حضور پیش ہو کر اللہ سائیں سے نثری ادب کی دنیا میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ جسارت، یہ سعی ، یہ آرزو اور یہ تحفہ اللہ سائیں اپنے دربار میں قبولیت سے سرفراز کرے اور انہیں وہ ہمت اور طاقت دے کہ ایسے کہیں نثر پارے ارشد ملک کے قلم سے پھوٹیں جنہیں اللہ سائیں کے حضور پیش کر کے نثری میدان کو وسعت عطا کریں۔
اس سفرنامہ کو ”رومیل ہاؤس آف پبلیکیشنز، راولپنڈی‘‘ نے بہت اہتمام سے شائع کیا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں