صحافی، شاعر، ادیب، مؤرخ اور نثر نگار پروفیسر اظہار حیدری کی کتاب، ’’آئینہ اظہار‘‘ مؤلف ہاشم اعظم کا تحفہ شاعرہ، صدف بنت اظہار کی جانب سے موصول ہوا. اولاد اگر سعادت مند ہو تو انسان کی زندگی خوش حال نظر آتی ہے اور بعد از مرگ خدمات کا صلہ صدقہ جاریہ کی شکل میں سامنے آتا ہے. جی ہاں، بالکل اسی قسم کی ایک مثال، روزنامہ جنگ، نوائے وقت، جسارت، حریت کے کالم نگار اور ماہنامہ رسالہ ”جواب‘‘ کے مدیراعلٰی بھی تھے. (بعدازاں انہوں نے اس رسالہ کا نام تبدیل کر کے ”پولیس جنرل جواب‘‘ کر دیا تھا، جس کی کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے.)
علاوہ ازیں امروز اخبار کے سب ایڈیٹر، خلافت، عدالت، رابطہ کے ایڈیٹر، سینئرصحافی، شاعر، محقق اور دانشور، اظہار حیدری کی زندگی میں لکھے جانے والے، تبصرے، کالم و مضامین کے بکھرے موتیوں کو یک جا کرکے ایک انمول لڑی میں پرو کر ’’آئینہ اظہار‘‘ کی شکل میں ان کی سعادت مند اولاد، ہاشم اعظم نے یکجا کرکے نہ صرف امر کیا بلکہ اُردو ادب کے خزانے کا حصّہ بھی بنا دیا اور ناصر اعظم، صبح ناز، صدف اظہار، عاصم اعظم، نے اپنے اپنے فرائض انجام دیے. بالخصوص صدف بنت اظہار کی کاوشوں اور خواہشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ مشاورت کے ساتھ بھر پور جدو جہد اور محنت کرکے ’’آئینہ اظہار‘‘ کو شایع کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو حسن اسلوبی سے ادا کرکے اپنے والد کے مشاغل و فن تحریر کو ناقابل فراموش بنا دیا. آج کل کی مصروف زندگی اور سائنسی ترقی کی دوڑ میں یہ سعادت مندی کی اعلیٰ مثال ہے کیوں کہ نوجوانوں کی ادب سے عدم دلچسپی نے کتابوں کی اہمیت کو نہ صرف نطر انداز کیا بلکہ اسے سٹور یا کباڑ خانے کی زینت بھی بنایا ہے. بہر حال ہم اصل موضوع پر آتے ہیں…
اظہار حیدری کے قلم کی روشنائی جب قرطاس پر پھیلنے لگی تو قومی، تاریخی، ادبی، سیاسی، سماجی، تعلیمی اور صحافتی موضوعات کو غیر جانب داری سے انسانی ذہن میں مچلنے والے سوالات کا جواب، با وزن دلائل کی روشنی میں لکھ کر امر کردیا اور معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات و مسائل پر طبع آزمائی کی، جو کہ ’’آئینہ اظہار‘‘ میں موجود ہے کہ جس کا اندازہ کتاب کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے.
شعر و سخن، علم و ادب، اظہار حیدری کو اپنے ہی ادبی گھرانے سے حاصلِ ہوا جب کہ آپ نے شاعری میں خیام الہند سید جلال الدین حیدر دہلوی سے شرفِ تلمذ حاصل کیا. اظہار حیدری کے جد امجد، محمود احمد انوری، اردو اور فارسی کے کہنہ مشق شاعر تھے، جب کہ اظہار کے والد انور دہلوی، تایا نازش حیدری بھی شاعری کرتے تھے. ان کی والدہ انیس جہاں بیگم کا مغلیہ خاندان سے تعلق تھا اور ان کے دوسرے بھائی، پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل، وفاقی اُردو یونیورسٹی کے ڈین اور وائس چانسلر کے عہدے پر فائز تھے.
اظہار حیدری نے ادب، تعلیم و تربیت اور تاریخ کے وہ گوشے جو کسی وجوہات کی بناء پر تفصیل سے شایع نہ ہو سکے تھے، انہیں بھی اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے اور اہل علم و قلم پر اپنے آوازدل بھی بیان کی ہے. مصنف نے ہر موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اسے اپنے کالم و مضامین کا حصہ بنا کر امر کر دیا ہے. اظہار حیدری، مدبر صحافی کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے. اعلیٰ شاعری اور موقع کی مناسبت سے شاعری کرنا ان کا خاصہ تھا.
’’آئینہ اظہار‘‘ میں قائد اعظمؒ، رتی جناح، ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، روحانی پیشوا پیر پگارہ، ٹیپو سلطان و دیگر شخصیات پر شخصی خاکے اور دیگر مضامین کے علاوہ کشمیر کے سلگتے موضوع، ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ رویہ، جنوبی ایشیا میں تصادم، ماہ و سال کے موسم، وجہ تخلیق کائنات، جنرل پرویز مشرف کے مقدمہ کا پس آئینہ، جیسے حساس موضوع کو اپنی تحریر کی زینت بنایا گیا ہے. جب کہ اظہار حیدری کی شخصیت پر بالخصوص سینئر صحافی و ادیب محمود شام، ڈاکٹر عبدالقدیر خان (جو کہ ایٹمی سائنس دان ہی نہیں بلکہ ادب پرور شخصیت بھی تھے، جسکی کی بناء پر) اظہار حیدری کی کتاب پر اپنے زریں خیالات کا اظہار کر چکے ہیں. جب کہ اظہار حیدری کے بڑے صاحب زادے پروفیسر ناصر اعظم، صاحب زادی صدف بنت اظہار، و دیگر کے احساسات بھی ’’آئینہ اظہار‘‘ میں بیان کیے گیے ہیں. علاوہ ازیں اظہارِ حیدری کے شعری مجموعہ کی تیاری بھی تکمیل کے مراحل میں ہے اور اپنے والد کے ادھورے خواب کی تکمیل کے لیے سماجی بھلائی، خدمتِ انسانی، نوجوانوں میں ادبی شعور کو اجاگر کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں. مکتبہ حیدری کے تحت ادبی تقریبات کا انعقاد کا بھی سہرا اظہار حیدری کی اولاد کو ہی جاتا ہے جن میں ہاشم اعظم اور صدف بنت اظہار نمایاں ہیں.
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار، فوزیہ تاج کی کی ایک اعلٰی افسانوی تصنیف، ”جل پری‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
نامور کالم نگار و افسر تعلقات عامہ محترمہ تابندہ سلیم کی کتاب، ”لفظ بولتے ہیں“ – محمد اکبر خان اکبر
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد