ڈاکٹر نیاز علی محسن مگھیانہ اردو اور پنجابی کے صاحبِ طرز ادیب اور شاعر ہیں. اب تک ان کی درجنوں کتابیں شائع ہو کر مقبولیت کی اسناد پا چکی ہیں. انہوں نے طنز و مزاح، کالم نگاری، شاعری، سفرنامہ انشائیہ اور دیگر اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے. اس وقت میرے سامنے ان کا سفرنامہ مصر، ”حسن مصر‘‘ کے نام سے موجود ہے، جس میں انہوں نے مصر جیسے طلسمی ملک کے سفر کا دلچسپ احوال لکھا ہے.
ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے اپنی کتاب کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے نام سے منسوب کیا ہے کہ جن کے دورِ حکومت میں نیل کے نام خط لکھا گیا.
سفرنامہ نگاری میں سب سے اہم بات اپنے تجربات و مشاہدات کو ایسے انداز سے قلم بند کرنا ہے کہ قاری کی دلچسپی بتدریج بڑھتی چلی جائے۔ دوسرے لفظوں میں اپنے تجربات کو جالب انداز میں پیش کرنا اور اپنے قارئین کو اپنے سفر کا حصہ بنانے کے لیے اپنی تحریر میں زندگی کا رنگ بھرنا ہر سفرنامہ نگار پر لازم ہے.
قدیم مصری تہذیب اپنے زمانے کی سب سے ترقی یافتہ اور پر اسرار تہذیب تھی جس کے عجائبات نے ایک مدت سے دنیا بھر کے مہم جو افراد، سائنسدانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کو حیران کر رکھا ہے. ڈاکٹر محسن مگھیانہ نے مختلف مقامات کا تذکرہ لکھتے ہوئے تاریخی پس منظر بھی پیش کیا ہے. انہوں نے اپنے سفرنامے میں سادگی، روانی اور شستگی و برجستگی کو آخر تک برقرار رکھا ہے. وہ واقعات نگاری میں کمال رکھتے ہیں اور اپنے سفر کے واقعات کو اعلٰی انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات و خیالات کی آمیزش سے اسے اور بھی دلکش و پر اثر بنا دیتے ہیں. کتاب کے باب فاتح بیت المقدس میں ان کا یہی اسلوب تسوید غالب دکھائی دیتا ہے.
ان کے سفرنامے کا ہر باب پڑھنے کے لائق ہے اکثر مقامات پر انھوں نے اتنی تفصیل سے اپنے سفر کا احوال لکھا ہے کہ بے ساختہ ان کے گہرے مشاہدے اور قوی حافظے کی داد دینا پڑتی ہے.
ڈاکٹر صاحب منفرد و جداگانہ اسلوب رکھتے ہیں جس میں طنز و مزاح کا رنگ غالب دکھائی دیتا ہے. جس کے نقوش ان کی کتاب کے متعدد حصوں میں دیکھے جا سکتے ہیں. ان کا یہ تیسرا سفرنامہ ہے. ان کی تحریر میں شگفتگی، چاشنی اور گھلاوٹ قاری کو بوریت سے بہت دور رکھتی ہے اور وہ مصنف کی انگلی تھامے منزلوں سے گزرتا چلا جاتا ہے. مصنف نے سفرنامہ تحریر کرتے ہوئے سفرنامہ نگاری کے تمام تر لوازمات کو نہایت اعلٰی طریقے سے برتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے پورے سفرنامے میں کوئی جھول اور بوجھل عبارت دکھائی نہیں دیتی. وہ مرصع کاری اور جزئیات نگاری سے اپنی سفری روداد کو بنا سنوار کر ایک دلکش شاہکار بنا دیتے ہیں.
کتاب میں متعلقہ مقامات کی خوب صورت رنگین تصاویر کی شمولیت نے اسے چار چاند لگا دیے ہیں. معروف شاعر اختر شمار اور نامور افسانہ نگار سیما پیروز کی آراء نے کتاب پر اپنی پسندیدگی کی مہر ثبت فرما رکھی ہے. ڈاکٹر محسن مگھیانہ کے دیگر سفرنامے میرے نظروں سے نہیں گزرے البتہ یقین کامل ہے کہ وہ بھی نہایت اعلٰی اسلوب کے حامل ادبی فن پارے ضرور ہوں گے.
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر