1919ء میں ایک امریکی تارکِ وطن خاتون نے پیرس کی اجنبی گلی میں ایک بک سٹور کی بنیاد رکھی۔ یہ انگریزی کتابوں کا پہلا کتب خانہ تھا۔
1920ء کی دہائی میں، یہ جگہ اُس وقت کے کئی ابھرتے اور نامور شاعروں ادیبوں کا مرکز رہی جن میں ایزرا پاؤنڈ (Ezra Pound)، ارنسٹ ہیمنگوے (Ernest Hemingway)، جیمز جوائس (James Joyce)، ایف سکاٹ فِٹزجیرالڈ (F. Scott Fitzgerald)، جُونا بارنس (Djuna Barnes)، گرٹروڈ سٹائن (Gertrude Stein) اور فورڈ میڈوکس فورڈ (Ford Madox Ford) شامل تھے۔
1921ء میں یہ کتب خانہ قریب ہی سڑک پار ایک بڑے احاطے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس امریکی خاتون کو یہ جگہ پسند آئی۔ جیمز جوائس کا ناول ’’یولیسس‘‘ (Ulysses) (1922ء) اور ہیمنگوے کی پہلی کتاب ’’تھری سٹوریز اینڈ ٹین پوئمز‘‘ (Three Stories and Ten Poems) (1923ء) اس نے یہیں سے شائع کیں۔
اس امریکی خاتون کا نام سِلویا بِیچ (Sylvia Beach) تھا اور یہ بک سٹور تھا ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ (Shakespeare and Company)۔ سلویا اس کتب خانے کی بانی اور پبلشر تھی۔
جنگِ عظیم دوم کے دوران جرمن فوجیوں نے شیکسپیئر اینڈ کمپنی کو زبردستی بند کر دیا۔ دسمبر 1941ء کے ایک دن، ایک نازی افسر سلویا کے سٹور میں داخل ہوا اور اس سے جیمز جوئس کی ’’فینیگنز ویک‘‘ (Finnegans Wake) کی آخری کاپی کا مطالبہ کیا۔ سلویا نے اسے کتاب فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ افسر نے کہا، وہ سلویا کے سارے سامان کو ضبط کرنے اور اس کی کتابوں کی دکان بند کرنے کے لیے دوپہر کو واپس آئے گا۔ اس کے جانے کے بعد، سلویا نے فوراً دکان کی تمام کتابیں اوپر والے اپارٹمنٹ میں منتقل کر دیں۔ آخر کار، سلویا کو نازی حکام نے گرفتار کر کے چھ ماہ کے لیے نظربند کر دیا۔ رہائی ملی تو وہ شدید علیل ہو چکی تھی۔ اب وہ ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ کو پھر سے چلانے کے قابل نہ رہی۔ ہیمنگوے کی ذاتی کوششوں سے چند سال یہ دکان برائے نام کھلی رہی، مگر کاروبار کی غرض سے دوبارہ کبھی نہ چل سکی۔
1959ء میں، سلویا بیچ نے اپنی یادداشتیں ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ (Shakespeare and Company) کے عنوان سے شائع کی جو امریکا میں اس کے بچپن سے شروع ہو کر دوسری جنگ عظیم کے بعد پیرس کی آزادی پر ختم ہوتی ہے۔ سلویا کا انتقال 1962ء میں پیرس میں ہوا۔
ہم نے نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل (Notre-Dame Cathedral) کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور دریائے سین (Seine River) کا حسین پُل پار کر کے ایک بک سٹور کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہاں اندر جانے والوں کا تانتا لگا تھا۔ یہ ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ کی موجودہ شکل تھی۔ پیرس کا یہ علاقہ پوائنٹ زیرو (Point Zero) کہلاتا ہے جہاں سے فرانس کی تمام سڑکیں شروع ہوتی ہیں۔
سلویا کا بک سٹور بند ہوا تو ٹھیک دس سال بعد 1951ء میں ایک اور انگریزی کتب خانے کا جنم ہوا۔ یہ پیرس کے مرکز میں، نوٹرے ڈیم کے سامنے، دریائے سین کے کنارے بنایا گیا۔ اس سٹور کو چلانے والا جارج وائٹ مین (George Whitman) بھی امریکی تھا جس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ فرانس میں گزارا۔ اس کے بک سٹور پر آنے والوں میں ہنری ملر(Henry Miller)، ایلن گنزبرگ (Allen Ginsberg)، رچرڈ رائٹ (Richard Wright)، ایناس نین (Anaïs Nin)، لارنس ڈوریل (Lawrence Durrell)، ولیم سٹائرون (William Styron)، جولیو کورٹازار (Julio Cortázar)، جیمز جونز (James Jones) اور جیمز بالڈوِن (James Baldwin) شامل تھے۔
جارج نے پہلے اس بک سٹور کا نام “Le Mistral” رکھا، لیکن 1964 میں ولیم شیکسپیئر کی 400 ویں سالگرہ کے موقع پر اور سلویا بیچ کی یاد میں یہ نام بدل کر ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ رکھ دیا۔ یہ سٹور فرانسیسیوں کے لیے جلد ہی ایک ادبی ثقافت کا مرکز بن گیا۔ جارج نے اپنے کتب خانے میں ایک عجیب طرح ڈالی۔ یہاں شیلفوں اور کتابوں کے ڈھیروں کے درمیان، سونے کے لیے چھوٹے بینچ نما بستر بنا دیے۔ وہ ادیبوں، دانشوروں اور مصوروں کو دکان پر مدعو کرتا اور انھیں یہاں ٹھہرنے کی پیش کش کرتا۔ جارج ان مہمانوں کو ’’ٹمبل ویڈ‘‘ (Tumbleweed) کہتا جو ہواؤں کے ساتھ اندر اور باہر بڑھتا ہے۔ وہ ہر ٹمبل ویڈ سے تین چیزوں کا مطالبہ کرتا: دن میں ایک کتاب پڑھو، دکان میں چند گھنٹے مدد کرو اور ایک صفحے کی خودنوشت لکھو۔ ان میں سے ہزاروں سوانح عمریاں جمع کی گئیں۔ یہ اب ایک شاندار آرکائیو کی صورت اختیار کر چکی ہیں جو مصنفین، مسافروں اور خواب دیکھنے والوں کی داستانوں کو منظر عام پر لاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 30,000 نوآموز لکھاری اور فنکار اس بک شاپ میں قیام کر چکے ہیں۔
ساٹھ سال تک، جارج نے دنیا بھر کے ہزاروں مصنفین اور زائرین کے لیے ایک گھر بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ وہ اپنی دکان کو سوشلسٹ یوٹوپیا کہتا تھا۔ ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ نہ صرف ایک مقبول بک سٹور تھا بلکہ بائیں بازو کا ایک مشہور ثقافتی ادارہ بھی بنا۔ آرٹ اور لٹریچر میں نمایاں خدمات انجام دینے پر جارج کو 2006ء میں فرانس کی وزارتِ ثقافت کی جانب سے ’’آرٹس اور ادب کا افسر‘‘ (Officier de l’Ordre des Arts et des Lettres) کے ٹائٹل سے نوازا گیا۔
جارج کی موت اس کی 98 ویں سالگرہ کے ٹھیک دو دن بعد ہوئی۔ اب اس بک سٹور کو اس کی اکلوتی بیٹی سلویا وائٹ مین (Sylvia Whitman) چلا رہی ہے۔ یہ نام اسے سلویا بیچ کی یاد میں دیا گیا تھا۔
آج ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی‘‘ پیرس میں نئی اور پرانی کتابوں کا ایک خوب صورت مرکز ہے جو کسی میوزیم سے کم نہیں۔ دن بھر یہاں زائرین کی رونق رہتی ہے۔ ایک بندہ دربان بنا صرف اس کام کے لیے معمور ہے کہ وہ پہلے داخل ہوئے لوگوں کو رخصت کرے اور نئے آنے والوں کی جگہ بنائے۔ ہماری باری پر دربان نے مسکرا کر استقبال کیا۔ اندر داخل ہوئے تو کتابوں کے رسیا اور سٹور کے مددگاروں میں پہچان مشکل ہو گئی۔ سب ہی تو کتابیں تھامے کھڑے تھے۔ کوئی دیوار سے کندھا ٹکائے مطالعے میں ڈوبا ہوا ہے، کوئی سیڑھی پر چڑھے شیلف سے کسی کتاب کی کھوج میں ہے۔
فاطمہ چن چن کر وہ کتابیں میرے سامنے کرتی جاتی جن کے تراجم بک کارنر اب تک شائع کر چکا ہے۔
”بالزاک‘‘ (Honoré de Balzac) کی ”یوجینی گراندے‘‘ (اردو ترجمہ: تاریک راہوں کے مسافر)، ”ڈکنز‘‘ (Charles Dickens) کی ”اے ٹیل آف ٹو سیٹیز‘‘(اردو ترجمہ: دو شہروں کی کہانی)، ”ہیوگو‘‘ (Victor Hugo) کی ”دی لاسٹ ڈے آف اے کنڈمڈ مین‘‘ (اردو ترجمہ: پھانسی)، ”کامیو‘‘ (Albert Camus) کی ”دی سٹرینجر‘‘ (اردو ترجمہ: اجنبی)، ”ٹولکن‘‘ (John Ronald Reuel Tolkien) کی ”دی ہابٹ‘‘ اور ”فرینک ہربرٹ‘‘ (Franklin Patrick Herbert Jr) کی ”ڈیون‘‘ کے کیسے کیسے عمدہ ایڈیشنز یہاں رکھے تھے۔ انھیں دیکھ کر میری تو رال ہی ٹپک گئی۔ میں نے پاس کھڑی ایک خوب رو لڑکی سے ”آنتوان ایگزوپیری‘‘ (Antoine de Saint-Exupéry) کی ”دی لٹل پرنس‘‘ (The Little Prince) کے بارے میں دریافت کیا۔
یہ بائبل کے بعد سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب شمار ہوتی ہے۔ سیلز گرل ہمیں ایک شیلف کے سامنے کھڑا کر کے آگے بڑھ گئی۔ ”دی لٹل پرنس‘‘ کے کئی ایڈیشنز میرے سامنے تھے۔ ان میں شامل پاپ اَپ ایڈیشن نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس میں کرافٹس کے انداز میں تصاویر کی کٹنگز پرکشش انداز سے سجائی گئی تھیں۔ کتاب کھولتے ہی تصویر کلی سے پھول کی مانند کھل کھل جاتی۔ اسے دیکھنے کے بعد دو دن تک جی مچلتا رہا، کاش وہ کتاب خرید لی ہوتی۔ تاہم، یہ شاہکار مجھے دوسری جگہ سے مل گیا، اس بک سٹور کا وزٹ بھی میری وش لسٹ میں تھا۔ کون سا بک سٹور، یہ کہانی پھر سہی۔
خیر، چند تصویریں لے کر ہم کاؤنٹر کی جانب بڑھے۔ ہم نے یہاں سے سوونیئر کے طور پر دو ٹوٹ بیگز (Tote Bag) کا انتخاب کیا تھا۔ بل ادا کرتے ہوئے سامنے ایک نوٹس پر میری نگاہ پڑی ’’یہاں تصویر اور ویڈیو بنانا ممنوع ہے۔‘‘ میں نے کاؤنٹر پر کھڑے شخص کے آگے اپنا موبائل کر دیا اور معذرت کی۔ اس نے خوش دلی سے کہا، ’’اٹس اوکے سر۔‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا اور سوچتا رہا، یہ جگہ ایسی تھی جہاں دنیا سے ماورا ایک نئی دنیا بسائی جا سکتی ہے، بھلا اس جنت میں داخل ہوتے ہی موبائل کی کون پرواہ کرتا۔ پھر ایک اور خیال کودا، کچھ لوگ کتاب کی بجائے محض فوٹوگرافی کے لیے بھی آتے ہوں گے، اور کہتے ہوں گے، ’’شیکسپیئر اینڈ کمپنی بھی ہو گئی، اب آگے بڑھو۔‘‘
امر شاہد کا شمار پاکستان کے نامور ناشرانِ کتب میں ہوتا ہے. آپ کا تعلق معروف اشاعتی ادارے ’’بک کارنر شوروم، جہلم‘‘ سے ہے. پیرس کے اس تاریخی کتب خانہ کے بارے میں یہ مضمون سلویا بیچ کے 138ویں جنم دن کے موقع پر 14 مارچ، 2025ء کو تحریر کیا گیا.