ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کا شعری مجموعہ ”چنار کے پھول‘‘ جدید اردو غزل کے افق پر ایک ایسے شاعر کی پرنور دستک ہے جس کی تخلیقات میں روایت کی گہری چھاپ اور جدت کی تازہ کاری ایک ساتھ جلوہ نما ہوتی ہیں۔ ان کی شاعری میں چنار کے پھول محض ایک درخت کے پھول ہی نہیں رہتے، بلکہ یہ وجودی حسرتوں، تہذیبی زوال اور انسانی رشتوں کی نزاکت کے استعارے بن کر سامنے آتے ہیں، جیسا کہ اس شعر میں ملاحظہ ہو:
جب سے ویران ہیں تری آنکھیں
ہیں بہت غمزدہ چنار کے پھول
یہاں محبوب کی آنکھوں کی ویرانی اور چنار کے پھولوں کی غمگینی کے درمیان ایک ایسا رشتہ قائم ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو نہ صرف جذباتی گہرائی رکھتا ہے بلکہ ماحول اور موسم کی تبدیلیوں کو بھی روحانی سطح پر محسوس کرنے کا انداز ہے۔ یہ خصوصیت انہیں ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کے شاعرانہ مزاج کو سہل ممتنع کی روایت سے جوڑتی ہے، جہاں بظاہر سادہ نظر آنے والے الفاظ میں گہرے انسانی تجربات اور فلسفیانہ حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں زبان اور خاموشی کے درمیان ایک نازک توازن پایا جاتا ہے۔ وہ درد کو نہ صرف بیان کرتے ہیں بلکہ اسے خاموشی کی زبان میں بھی ڈھال لیتے ہیں:
درد کے ترجماں مرے اشعار
میری چپ کی زبان مرے اشعار
تازہ موضوع جوان ہیں جذبے
روشنی کا نشاں مرے اشعار
یہاں شاعر اپنے اشعار کو اپنے وجود میں پنہاں خاموشی کی ترجمانی کا ذریعہ بناتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل تخلیقی عمل خاموشی کے ان گہرے سمندروں سے پھوٹتا ہے جہاں الفاظ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ روشنی کے نشان کے طور پر اشعار کا تصور ان کے فن کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔ موجودہ دور کے تناظر میں ڈاکٹر اکھیاںؔ کی شاعری میں خودی کے مسائل اور وجودی بحرانوں کو بڑی خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنے وجود کو بھول کر خوابوں کی دنیا میں کھو جانے کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
اپنا وجود بھول کر
سپنوں میں کھو چکا تھا میں
یہاں خواب اور حقیقت کی سرحدیں مدھم ہو جاتی ہیں، جو جدید انسان کی بنیادی نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے ہاں محبت کا تصور بھی روایتی انداز سے ہٹ کر پیش ہوا ہے:
تیرے رنگ میں ڈھل جاوں گا سوچا کب تھا
میں بھی یار بدل جاوں گا سوچا کب تھا
اس شعر میں رومانوی انداز کے باوجود ایک قسم کی عملی حقیقت نگاری بھی پائی جاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ محبت کے تصور کو نئے زاویوں سے دیکھا گیا ہے۔ ان کی شاعری سماجی شعور سے بھی لیس ہے، جہاں وہ معاشرتی مسائل کو بڑی خوبصورتی سے اپنے اشعار میں سمو لیتے ہیں:
روشنیاں درکار تھیں میرے لوگوں کو
یوں بھی گھر کو آگ لگا بیٹھا تھا میں
یہ شعر معاشرتی تبدیلی کی خواہش اور اس کے لیے ذاتی قربانی کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر اپنی ذات کے بحران کو بھی ایک نئے انداز میں پیش کرتا دکھائی دیتا ہے:
جو کردار اپنی کہانی میں ہے
مری ذات اسی کے معانی میں ہے
یہاں ذات کی تلاش اور کردار کی تشکیل کے مسئلے کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، جو جدید دور کے انسان کی بنیادی الجھن کو ظاہر کرتا ہے. ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کا اسلوب نہ صرف سادگی، گہرائی اور گیرائی کا امتزاج پیش کرتا ہے بلکہ اردو غزل کو نئے موضوعات اور نئے اسالیب سے بھی روشناس کرواتا ہے۔
مجموعی طور پر ”چنار کے پھول‘‘ اردو شاعری کا ایک ایسا گلدستہ ہے جو نہ صرف روایت کی آبیاری کرتا ہے بلکہ جدت کے پھول بھی کھلاتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد یٰسین اکھیاںؔ کی شاعری اپنے قاری کو جذباتی طور پر تو متاثر کرتی ہی ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ وہ فکری طور پر بیدار کرتی ہے، جو کہ اصل میں کسی بھی بڑے شاعر کی پہچان ہوتی ہے۔