جب سے حقیر فقیر بندہ پر تقصیر کوئٹہ کے مشاعروں میں شرکت کرنے لگا تو ہر مشاعرے میں دماغ پر چھا جانے اور قلبِ نازک میں اتر جانے والے چند شعراء کرام میں احمد وقاص ہمیشہ سر فہرست دکھائی دیتے وہ جس مشاعرے میں بھی موجود ہوتے خوب داد پاتے ان کی شاعری بہت سے سخن شناسوں کو ہر محفل سخن میں کشاں کشاں کھینچ لاتی. ان کی محبت ہے کہ انھوں نے اس ہیچمداں کو اس قابل سمجھا کہ ان کے تازہ مجموعہ کلام پر رائے زنی کی جسارت کرسکوں جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں.
ان کا تازہ مجموعۂ کلام ”چاک‘‘ اردو شعر و غزل کے معاصر منظرنامے میں ایک اعلٰی اور منفرد اضافہ ہے، جو نہ صرف شاعر کے جذباتی تنوع کا آئینہ دار ہے بلکہ اس میں اسلوبیاتی سطح پر جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی لطیف کرنیں بھی پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ان کی شاعری داخلی کیفیات کی شدت اور خارجی دنیا کے انتشارات کے مابین ایک ایسا ربط قائم کرتی ہے جو قاری کو تفکرات و احساسات کی دوہری سطح پر گرفت میں لے لیتا ہے۔ ”چاک‘‘ ایک احساساتی تجربہ ہے، جہاں خواب، آنسو، آنکھیں اور دشت جیسے استعارے، شاعر کی داخلی کائنات اور اس کے مشاہدے کی گہرائیوں اور وسیع النظری کا مظہر بنتے ہیں۔ان کے کلام میں ندرتِ خیال اور جذباتِ لازوال کی گہری جھلکیاں نظر آتی ہیں. وقاص کی شاعری میں ہجر و فراق کا گہرا رنگ غالب ہے، مگر یہ فراق ایک رومانوی سطح سے اوپر اٹھ کر وجودی بےچینی میں ڈھل جاتا ہے۔ وہ محض جدائی کو موضوع نہیں بناتے بلکہ اس کے پیچیدہ نفسیاتی و جذباتی اثرات کو بھی اپنے اشعار میں سمو دیتے ہیں۔
وہ جس آواز کے ہم منتظر ہیں جانے کب سے
اگر اس نے کبھی ہم کو پکارا کیا بنے گا
ایک اور مقام پر ناموافق حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اگر وصال کی صورت نہیں بنے گی کوئی
میں تیرا ہجر منا لوں گا اور بنا لوں گا
ان کے ہاں یہ ہجر وفراق ، یہ اداسی، محض نالہ و فریاد آہ و فغاں تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس میں ایک عجیب سی رجائیت بھی پنہاں لگتی ہے. ایسی رجائیت جو مکمل امید پر مبنی نہ سہی، لیکن قنوطیت اور مایوسی سے بھی گریزاں ہے۔ یہ کشمکش اور تذبذب، ان کی شاعری کو مزید معتبر اور حقیقی بنا دیتا ہے۔ ان کی غزل کا یہ شعر دیکھیں:
تجھ کو چھونے کا ارادہ تو کیا ہے میں نے
یوں نہ ہو میرے ارادے کو نظر لگ جائے
غزل کا یہ شعر جذبہ عشق کو ایک لطیف نفسیاتی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے، جہاں وصل کی تمنّا بھی ہے اور ہجرو فراق کا خوف بھی، اور اسی خوف میں ایک طرح کی اپنائیت اور محبت کی گہرائی بھی جھلکتی ہے۔ اسی طرح وہ ایک غزل میں شکوہ کناں ہیں:
دکھوں کے ہاتھ لگے ہیں خوشی کے ہاتھ لگے
عجیب ڈھنگ سے ہم زندگی کے ہاتھ لگے
احمد وقاص کے اشعار زیست انسانی کی بےثباتی، سماجی ناہمورای اور غیر متوقع رویّوں کا آئینہ ہیں، جہاں شاعر نہ تو مکمل طور پر شاکی نظر آتا ہے نہ ہی کامل شادمانی کی کیفیت میں مست بلکہ زندگی کو ایک پیچیدہ ترین تجربہ جان کر اسے بیان کرتا معلوم ہوتا ہے۔ ان کی مختصر بحر میں کہی گئی غزلیں ان کی فکری گہرائی، معنوی بصیرت اور اظہارِ ذات کی مہارت کا ایک اور ثبوت ہیں۔
میں نے وحشت طاری کی
تونے دنیا داری کی
یہ اشعار نہ صرف معنی آفرینی کے حامل ہیں کی بلکہ صوتی آہنگ میں بھی سادگی اور اثر انگیزی کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں۔ ان اشعار میں داخلی شکست و ریخت ، سماجی بےربطی اور شخصی نارسائی کا بیان نہایت اختصار میں سمٹ رہا ہے۔ ”چاک‘‘ کی غزلیں اس مجموعے کا حسنِ خاص ہیں، جہاں کلاسیکی روایت کی گونج کے ساتھ جدید حسیت کا تاثر بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
کوزہ گر اتنے بھرے رہتے ہیں
چاک پر خواب دھرے رہتے ہیں
ان کے اشعار صدیوں پرانی روایتِ صنائع کو ایک استعاراتی سطح پر آج کے انسان کی امیدوں اور تمنّاؤں سے جوڑ دیتے ہیں. ان کا یہ شعر بھی غور طلب ہے:
دل کے بجھنے پہ بھلا کیا حیرت
پیڑ تا عمر ہرے رہتے ہیں
اس شعر میں وہ معنوی پیچیدگی ہے جو قاری کو ایک لمحے کو ٹھہر کر سوچنے پر مجبور کرتی ہے. احمد وقاص کا یہ شعری مجموعہ ایک ایسے شاعر کا پتہ دیتا ہے جو اندرونی سطح پر تو زخم خوردہ ہے، لیکن ان زخموں کو سلیقے سے اشعار میں ڈھالنے کا ہنر بھی رکھتا ہے.
وقتِ گریہ نہیں ملتا ہم کو
اشک آنکھوں میں بھرے رہتے ہیں
ان کی غزل کا یہ شعر ایک ایسے عہد کی نمائندگی کرتا ہے جہاں تنگی وقت اور جذباتی جمود، انسان کو رونے جیسی جبلّی کیفیت سے بھی محروم کر چکا ہے۔ ”چاک‘‘ میں موجود غزہ کے تناظر میں کہے گئے اشعار شاعر کی حساسیت، انسان دوستی اور عالمی جبر و استبداد کے خلاف صدائے احتجاج ہیں ان میں امت مسلمہ کا نوحہ بھی ہے اور مظلوموں کے لیے ہمدردی کے جذبات بھی.
ہماری لاشیں کوئی دیکھنے نہیں آیا
تمام ہو ہی گیا انتظار آخری بار
ان اشعار میں جو کرب ہے وہ صرف غزہ کا نہیں، ہر اس خطے کا ہے جہاں انسان کی حرمت پامال ہو چکی ہے چاہے وہ کشمیر ہو، اراکان ہو، شام ہو، افغانستان ہو یا پھر لبنان ۔ شاعر یہاں محض مبصر نہیں بلکہ شریکِ درد ہے اور شریکِ رنج و غم بھی. سخنوری کا یہی رنگ ان کی تخلیقی دیانت اور فراست کی دلیل ہے۔ غالب نے کہا:
وداع ووصل جداگانہ لذتے دارد
ہزار بار برو صد ہزار بار بیا”
احمد وقاص نے اپنی غزل میں اس شعر کے مصرعہ ثانی کا خوب استعمال کیا ہے اور میراثِ عشق کی کلاسیکی روایت کو موجودہ تناظر میں تازہ معنی دے کر زندہ کردیا ہے۔ یہ دل کی وہ صدا ہے جو جدائی کو سراپا دعوتِ وصال میں بدل دیتی ہے۔ ”چاک‘‘ نہ صرف ایک مکمل فنّی تجربہ ہے بلکہ احمد وقاص کے بطور شاعر پختہ شعری شعور اور داخلی سچائی کا بیان بھی ہے، جو اردو غزل کے سفر میں ایک نئی لطافت، چمکتی ہوئی جذبات کی صداقت اور اثر انگیز خیالات کی طاقت اور جذبات کی فراوانی سے عبارت ہے.











