حضرت شاد کی ”شذرات‘‘ پر برجستہ تبصرہ – حبیب حسین

ابھی رات کو مولانا عبدالرشید (شاد مردانوی) نے اپنی منفرد کاوش ”شذرات‘‘ کے پیراہنِ طباعت سے آراستہ ہونے کی خوشی میں احباب کو پُرتکلف عشائیہ دیا۔ خبیر شنواری کے پرفضا ماحول میں ہونے والی یہ بیٹھک یوں سمجھ لیجیے ایک غیر رسمی ”تقریبِ رونمائی‘‘ تھی۔
میرا خیال تھا صرف ماکولات کا نظم ہوگا مگر مولانا نے پیشگی اطلاع کے بغیر گفتگو کی دعوت دے کر اس خاکسار کو مشکل میں ڈال دیا۔ ”شذرات‘‘ اسی محفل میں میرے ہاتھ لگی تھی. جب شرکاء مجلس گپ شپ کرتے رہے تو میں اس کی مختلف مقامات سے ورق گردانی کرتا رہا۔
مولانا کی دعوت پر جو برجستہ گفتگو کی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرا عربی زبان سے پیشہ ورانہ تعلق گذشتہ 18 برس سے قائم ہے۔ اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ عربی زبان وادب کا ایک دیوانہ طالب علم ہونے کے سبب ”شذرات‘‘ کا سب سے زیادہ بے تابی سے انتظار اس خاکسار کو تھا تو مبالغہ نہ ہوگا. اس لیے ان کی کتاب ہاتھ لگتے ہی بیسیوں مقامات سے بغور پڑھی۔ انہوں نے عربی اشعار کا تحت اللفظ کی بجائے سلیس، بامحاورہ اور مطلب خیز ترجمہ کیا ہے۔ مولانا خود اُردو و عربی ادب کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں جب کہ اُردو زبان کے ممتاز شاعر بھی ہیں۔ اس شاعرانہ پس منظر کی پرچھائیں ”شذارت‘‘ کے ہر ورق پر پڑتی نظر آئیں۔ انہوں نے عربی اشعار کی تفہیم میں جابجا اپنے اور دیگر شعراء کے اُردو اشعار سے استشہاد کیا ہے۔ اس پہلو نے ”شذرات‘‘ کو معلقات کی دیگر دستیاب شروح وتراجم سے منفرد بنادیا ہے۔ میرے کرم فرما عنایت شمسی صاحب کے ایک سوال کے جواب میں راقم نے اپنے ”ماحضر علم‘‘ کی بنیاد پر زمانہ جاہلیت پر بھی کچھ معروضات پیش کیں۔
”مُعلقات‘‘ زمانہ جاہلیت کا ادبی سرمایہ ہے اور اس سے متعلق پہلا سوال ایک طالب علم کے ذہن میں یہ کلبلاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کا اطلاق تحدیدا کس عہد پر ہوتا ہے؟
جاحظ کے بقول قبل از اسلام ڈیڑھ سو یا دوسو برس کی مُدت ”عہدِ جاہلیت‘‘ کہلاتی ہے اور اس دور میں جو منظوم اور منثور ادب وجود میں آیا اسے ”ادبِ جاہلی‘‘ کہا گیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس عہد کو یا اس کے ادبی تراث کو جاہلی کیوں کہا جاتا ہے؟
عموماً ہمارا ذہن ان پڑھ معاشرے کی طرف جاتا ہے مگر ایسا نہیں۔ جہل سے مراد یہاں وہ جہل ہے ہی نہیں جو علم کی ضد ہے بلکہ یہ اس خاص کیفیت کا نام ہے جس میں غصہ، عصبیت اور شجاعت جیسی صفات، غُلو کے سبب ظلم وتعدی کی حدوں کو چھو لیتی ہیں۔ مثلاً عمروبن کلثوم کا شعر:

الا لا یجھلن أحد علینا
فنجھل فوق جھل الجاھلین

یا عنترہ بن شداد کا شعر:

إذا بُلیتَ بظالم کن ظالما
إذا لقیتَ ذوي الجهالة فاجهلي

یا قرآن کی آیت ”خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلین‘‘ تو ان نصوص میں جہل سے وہ جہل مراد ہی نہیں جس کی طرف ایک عام اُردوداں قاری کا ذہن منعطف ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے وہ خاص کیفیت مراد ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے۔ تو دور جاہلیت کی وجہ تسمیہ ایک تو یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس دور کے عرب میں ایجابی صفات، غلو کے سبب سلبی بن جاتی تھیں۔ اسی کو جہل سے تعبیر کیا گیا۔
دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس دور کا معاشرہ ”غیر مُنعَم بالإسلام‘‘ یعنی نعمتِ اسلام سے محروم تھا تو یہاں ان کے جہل کی نسبت اسلام کی طرف ہے کہ اسلام سے بے بہرہ ہونے کے سبب وہ دور ”عہدِ جاہلیت‘‘ کہلایا اور اس میں وجود میں آنے والا ادبی سرمایہ ادب جاہلی۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا عبدالرشید (شاد مردانوی) اس وقیع ادبی کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس مجلس کی برجستہ گفتگو نے میرا کام آسان کردیا کہ اسے یہاں نقل کرکے ایک طرح سے خود کو ہلکان محسوس کررہا ہوں ورنہ باضابطہ رسمی تحریر میں دیانت کے تقاضے اور دوستی کی نزاکتیں تبصرہ نگار کی کمر توڑ دیتی ہیں۔ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں حق تلفی نہ ہوجائے۔
حرفِ آخر یہ کہ شاد مردانوی صاحب کی ”شذرات‘‘ معلقات کے مدرسین و طلبہ اور عربی ادب سے دلچسپی رکھنے والے عام اُردو داں قارئین، دونوں طبقات کے لیے ایک گراں قدر ادبی سوغات ہے۔