جرمنی میں بچوں کے ادب کا ایک جائزہ – عشرت معین سیما

دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح جرمنی میں بھی بچوں کے ادب کا ایک الگ مخصوص حصہ موجود ہے۔ خوش قسمتی سے یورپی زبانوں میں بچوں کا ادب تعلیمی قابلیت اور نفسیاتی تربیت کے حوالے سے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جوکہ معاشرے کی ترقی کا دارومدار، علم اور تربیت کے امتزاج کو مانتے ہیں اور انسانی قدروں اور انسانیت کے فروغ کو ساری دنیا میں پھیلانے کے خواہاں ہیں۔
جرمنی میں بچوں کا ادب تحریر کرنے والے ادیب باقائدہ تربیت یافتہ ہیں اور بچوں کی عمر، ذہنی استعداد اور ان کے پرورش کے ماحول کو مد نظر رکھ کر اپنا ادب لکھتے ہیں۔ جرمنی میں بچوں کا ادب تحریر کرنا سب سے مشکل ترین ادب تخلیق کرنا مانا جاتا ہے. اس شعبے میں جہاں بچوں کو زندگی میں محنت کی عظمت اور علم کی افادیت کا احساس قوی کرنا مقصود ہے وہیں نفسیاتی بنیاد پر بچوں کی اصلاحی ذہنی تربیت کرنا بھی ادیب کی ذمہ داری مانی جاتی ہے۔ اس لیے بچوں کے بہت سارے ادیب زندگی کے حقائق کو سائنس فکشن کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ اُن کی تخیل پرواز بڑھاتے ہوئے نئے افکار بھی ادب میں پیش کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کلاسیکل دیو مالائی کہانیوں کے سلسلے سے بھی مسلسل جڑے ہوئے ہیں۔ جو کہ متنوع موضوعات اور عمدہ بیانات میں ایک کامیاب اور صحت مند ادب تخلیق کرنے کی نشانی ہے۔
جرمنی میں بچوں کا ادب تخلیق کرنا جہاں ناشران اور ادباء کے لیے بہت بڑی ذمہ داری ہے وہیں والدین، سکول اور آفٹر سکول کلب کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صحت مند تخلیق کردہ ادب کو بچوں میں فروغ دیں اور ان کے مطالعے کے لیے گھر اور کتب خانوں تک اس کی پہنچ ممکن بنائیں۔
بچوں کے ادب کے فروغ اور مطالعے کے رجحان میں اضافے کے لیے جرمنی میں سکولوں کے علاوہ شہر کے ہر محلے میں سرکاری کتب خانے موجود ہیں جہاں بچوں کی کتابیں، رسائل، اخبارات میں اطفال ادب کے صفحات اور ویڈیو و آڈیو کتب کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ جہاں نہایت معمولی فیس ادا کر کے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کا بھی سالانہ کارڈ بن جاتا ہے جس کے تحت بچے اس ادبی خزانے سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سکولوں اور کتب خانوں میں مطالعاتی مقابلے اور کوئز پروگرام بھی ماہانہ کی بنیاد پر منعقد کیے جاتے ہیں جہاں بچے ایک ماہ میں پڑھی گئی کتابوں کی تعداد اور ان کتب کے مواد سے متعلق سوالوں کے جوابات اپنے گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ دیتے ہیں اور سب سے زیادہ کتاب پڑھنے اور اس سے متعلق سوالوں کے جوابات دینے والے بچے کو لائبریری اور سکول کی طرف سے انعامات دیے جاتے ہیں۔ یہ انعامات کتابوں کی دکانوں یا ناشران کی جانب سے ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ بچوں کا لکھا گیا ادب اور شاعری، ان کی اپنی کاوشوں کے تحت اخبار سازی مع تصاویر، مضامین و خبریں، بچوں کے رسائل اور اس کی پیش کش کے بھی سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ مقابلے مختلف علاقوں کے سکولوں کی جانب سے منعقد کیے جاتے ہیں۔ سرکاری سطح پر ایسی سرگرمیوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ بچوں کے ادب پر سالانہ ایوارڈ ایک بچوں کے بالغ ادیب اور ایک بچے ادیب کو دیا جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی عالمی ادب میلہ، عالمی کتب میلہ اور عالمی فلم میلہ بھی جرمنی میں بہت اہم ہیں جس میں باقائدہ بچوں کے حوالے سے خاص دن و اوقات رکھے جاتے ہیں اور بچوں کے فلاح و بہبود کے ادارے اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میلوں میں بچوں کے ریڈیو، ٹی وی اور فلم بندی کے اداروں کے ساتھ ساتھ ناشران بھی بڑی تعداد میں حصہ لیتے ہیں اور دنیا بھر سے مہمان بچوں اور بچوں کے ادیبوں کو دعوت دی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں بچوں کے عالمی دن پر بھی بچوں کے ادیب و شعراء خصوصی کتب اور بصری و سمعی ادب کی پیش کش کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ہسپتالوں، ٹرسٹ اور بچوں کے ہاسٹل وغیرہ میں جو کتابیں یا بصری و سمعی ادب رکھا جاتا ہے اس میں موجودہ پرورش اور حالات کے مطابق ماحول اور بچوں کی نفسیاتی کیفیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بے گھر بچوں کے ہاسٹل میں گھر کا تصور شہری، ملکی اور علاقائی سطح پر انسانوں کی اجتماعی رہائش کو ہی بنا کر کیا جاتا ہے۔ جانوروں، پھول پودوں سے محبت ماحولیات کو بھی گھر کا خاص رکن بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ گھر بچے کی پرورش اور تحفظ کی آماج گاہ ہے اس لیے والدین کو بھی ہمیشہ اس بات کے تعاون کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ بچوں کا کمرہ یا گھر کبھی بھی بچوں کے ادب اور کتابوں سے خالی نہ رہے۔ اس ضمن میں ایک ابلاغی ادارے کے سروے کے مطابق دس اہم بچوں کی کتابیں اور خاص ادیبوں کا لکھا گیا ادب بچوں کی ذہنی و نفسیاتی نشونما کے لیے لازمی طور پر ہر اس گھر میں موجود ہے جہاں تین سال سے سترہ سال کے بچے موجود ہیں۔
بچوں کے لیے لکھی جانے والی بے شمار کتابوں میں جن دس کتابوں کا میں نے ذکر کیا ہے، وہ یہ ہیں:

1. مقبول تصوراتی کرداروں کے حوالے سے بچوں کی پہلے نمبر پر اہم کتاب ”نہ ختم ہونے والی داستان‘‘ ہے.
جرمن مصنف مشائیل اَینڈے (Michael Ende) کی شاہکار کتاب ”نہ ختم ہونے والی داستان‘‘ (The Neverending Story) اب تک کئی ملین کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہے اور متعدد انعامات کی حقدار ٹھہری ہے۔ یہ کتاب دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور شاید ہی کوئی جرمن بچہ ایسا ہو گا، جس کے پاس یہ کتاب نہیں ہو گی۔ یہ کہانی نو عمر لڑکے باستیان کی ہے، جو فینٹیسی لینڈ میں نت نئی مہمات سر کرتا رہتا ہے.

2. چڑیلوں، ڈاکوؤں اور جادوگروں متعلق کہانیوں میں ایک اہم کتاب بچوں کے پسندیدہ ادیب اوٹ فریڈ پروئسلر (Otfried Preußler) کی “ ایک چھوٹی چڑیل“ (The Little Ghost) نامی کہانی کا سلسلہ وار ادب نہایت مقبول ہے۔ اس کہانی میں ایک کردار ایک چھوٹی ”پروٹاگونسٹن‘‘ نامی چڑیل کا ہے جو ایک سو ستائیس سال کی ہے اور بہت اچھے کام کرتی ہے۔ یہ 1966ء میں لکھا گیا بچوں کا ادب 2018ء میں فلم میں ڈھالا گیا اور کتاب کی طرح یہ فلم بھی بے حد مقبول ہوئی اور اس کا دنیا کی 47 زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔

3. جرمنی سے باہر سیر و تفریح سے اور غیر ممالک کے سفر اور سفری تجربات سے متعلق ایک کتاب ”پانامہ کا سفر‘‘ (The Trip to Panama) کے عنوان سے بہت معروف ہے۔
یہ ایک ریچھ اور ایک شیر کی کہانی ہے جو ایک گھر میں ہنسی خوشی رہتے ہیں ۔ ایک دن اُنہیں ایک ڈبہ ملتا ہے، جس پر پانامہ لکھا ہوتا ہے۔ اُس کے اندر سے کیلوں کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے اور تب وہ دونوں اپنے خوابوں کی اس سرزمین کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ یہ کہانی غیر منطقی ہونے کے باوجود بچوں میں بہت مقبول ہے۔ یہ کتاب معروف بچوں کے مصور اور جرمن مصنف یانوش (Janosch) کی ہے جو بیک وقت کہانی کو لفظی و تحریری شکل دیتے ہیں۔ سیر و تفریح اور دوسرے ممالک میں سیر کرتے ہوئے سفری تجربات اور تجسس کو اس کہانی میں بنیاد بنایا گیا ہے۔
کچھ سالوں قبل جرمنی کے ادب میلے میں تشریف لائے ہوئے بابو رام نامی بچوں کے ہندوستانی مصور و مصنف کے فن کہانی سے مماثلت رکھتی ہے۔ یانوش کے تخلیق کردہ یہ عجیب و غریب کردار بچوں میں بے حد مقبول ہیں اور ان کے ذریعے زندگی کے ظاہری و پوشیدہ مسائل اور ان کے حل کی جانب توجہ دلائی ہے۔

4. بچوں کی معذوری یا نفسیاتی مسائل سے متعلق کہانیوں میں ایک دلچسپ و عجیب کہانی ”اُرمل‘‘ (Urmel) کے عنوان سے ہے جس کے مصنف بچوں کے جرمن ادیب ماکس کرُوزے (Max Kruse) کی ہیں۔ ان کی تحریروں میں بے شمار عجیب اور پر تخیل کرداروں کا جھمگھٹا ہوتا ہے۔ ان کی کہانی کا مرکزی کردار پروفیسر ہاباکُوک ہے اور اُن کے اردگرد بھی اسی طرح عجیب الخلقت کردار جمع ہوتے ہیں. ایک بار ان کو ایک روز ایک بہت بڑا انڈہ ملتا ہے، جس میں سے نکلنے والے بچے کو وہ ”اُرمل‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ہر کردار کے بولنے میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے، کوئی تتلاتا ہے تو کسی کی آواز میں لکنت ہوتی ہے اور بچوں کو اُن کی باتیں خوب مزہ دیتی ہیں۔
اس کہانی کو بھی لسانی حوالے سے بہت اہمیت حاصل ہے۔ دیگر زبانوں کے الفاظ اور صوتی لحاظ سے درجہ بندی کے زریعے جرمن معاشرے میں موجود دیگر زبانوں کے الفاظ و تلفظ کو جرمن بچوں کی سماعت سے مانوس کروانے کے لیے یہ ادیب کی ایک لائق ستائش کوشش ہے۔

5. 1933ء کے زمانے سے جنگ کے حوالے سےجرمنی کے تلخ ماضی کی یاد اور مہاجرین کے مشکل حالات پر مصائب کی داستان کو بھی بچوں کے جرمن ادب میں شامل کیا گیا ہے۔
1923ء میں موجودہ جرمن دارالحکومت برلن میں جنم لینے والی برطانوی مصنفہ جُوڈِتھ کَیر (Judith Kerr) کی کتاب ”جب ہٹلر نے گلابی خرگوش چرا لیا‘‘ (When Hitler Stole Pink Rabbit) کو 1974ء میں بچوں کی کتابوں کے اعلٰی ترین جرمن انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک نو سالہ یہودی لڑکی آنا اور اُس کا کنبہ نازی سوشلسٹوں سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور مذہبی تعصب کے حوالے سے کن کن مصائب کا شکار ہوتے ہیں اور پھر اس کی داستان رقم کرتے ہیں۔

6. جرمن مصنف ایرِش کیسٹنر (Erich Kästner) کی کہانیاں بچوں کے لیے نہایت دلچسپ و معلوماتی ہیں. یہ انسان کی اچھی صفات پر درسی کہانیوں کا مجموعہ ہیں اور اسکولوں کتب خانوں اور آفٹر اسکول کلب میں ضرور موجود ہوتی ہیں۔
‎جرمن مصنف کی بچوں کے لیے یہ تحریر کردہ کئی کتابیں مثلاً ”ایمل اور سراغرساں‘‘ (Emil and the Detectives) یا پھر ”اُڑتا ہوا کلاس کا کمرہ‘‘ (The Flying Classroom) بچوں میں بے حد مقبول ہیں۔ ان مزاحیہ اور بصیرت افروز کتابوں کے دنیا کی ایک سو سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور کئی ایک پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ یہ مشہور جملہ بھی کیسٹنر ہی کا ہے کہ ”اچھائی کا کوئی وجود نہیں ہے، بجز اس کے کہ انسان یہ (اچھائی) کرے.‘‘

7. ساتویں نمبر پر جس کتاب کا میں ذکر کروں گی اس کا عنوان بھی ”سات شرارتیں ہے‘‘. یہ کہانی ”ماکس اور مورِٹس‘‘ (Max and Moritz) نامی دو شریر بچوں کی داستان ہے، جو شرارتوں میں اپنی ذہانت اور کبھی کبھی اپنی بیوقوفی کا کیسے شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ کتاب بھی لازمی طور پر ہر جرمن بچے کے بُک شیلف میں ہوتی ہے۔ پہلی بار یہ شاہکار کتاب 1865ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کردار شاعر اور مصور ولہیلم بُش (Wilhelm Busch) نے تخلیق کیے تھے، جنہیں آج کل کی مزاحیہ کارٹون کہانیوں کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ اُن کی کتابوں کے کئی جملے آج کل کے جرمنی میں ضرب الامثال کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں بچوں کی نفسیات اور اُن کی پرورش کے ماحول کو بنیاد بنا کر کہانیاں پیش کی گئی ہیں جو بچوں کی تربیت میں سبق آموز کہانیاں شمار کی جاتی ہیں.

8. جب بچے شرارت سے باز نہ آئیں “تو ان کی تنبیہ کے لیے یہ جرمن مصنف ہائنرش ہوفمان (Heinrich Hoffmann) کی کتاب ”شٹرووَل پیٹر‘‘ (Struwwelpeter) اور بھی پرانی ہے. یہ 1845ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ اُن کی تمام کہانیوں کا لُبّ لُباب یہی ہے کہ جب بچے شرارتوں سے باز نہیں آتے تو اُنہیں اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ اُن کے تخلیق کردہ کئی جملے بھی آج کل جرمن زبان میں محاورے بن چکے ہیں۔

9. جب ہر جانب برطانوی مصنفہ جے کے رالنگ (J. K. Rowling) کے کردار ہیری پوٹر کی دھوم مچی ہوئی تھی، اس وقت جرمن مصنفہ کورنیلیا فُنکے (Cornelia Funke) کی تین جِلدوں پر مشتمل داستان ”ٹِنٹن ہَیرتس‘‘ (Tintenherz) کی پہلی جلد شائع ہوئی جو نہ صرف بہت مقبول ہوئی بلکہ فلمائی بھی گئی۔ یہ ایک بارہ سالہ لڑکی مَیگی کی کہانی ہے، جس کے پاس یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کہانیوں کی کتابیں پڑھتے ہوئے اُس میں سے تصوراتی کرداروں کو باہر نکال سکتی ہے یا حقیقی کرداروں کو کہانی کے اندر بھیج سکتی ہے۔ کورنیلیا فنک جرمن مصنفہ ہیں لیکن کئی برسوں سےامریکہ میں مقیم ہیں۔

دسویں اور اہم بچوں کی کتاب ہے اس عنوان ہے ”چہرے پر خواہشوں کے نشان‘‘
یہ کہانی جرمن بچوں میں بہت مقبول اس کردار کا نام ہے، ”زَمس‘‘ (Sams) اور اسے تخلیق کیا ہے جرمن ادیب پاؤل مار (Paul Maar) نے۔ یہ ایک نوعمر کردار ہے، جس کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا ۔ بظاہر وہ لڑکا زیادہ لگتا ہے۔ اُس کے چہرے پر چھوٹے چھوٹے نقطے ہیں جو اس کی ”خواہشات‘‘ کے نشان ہیں۔ کوئی چھوٹی خواہش ہو تو چہرے سے ایک نقطہ غائب ہو جاتا ہے جب کہ بڑی خواہشوں کے لیے دو یا تین نقطے بھی ابھر آتے ہیں۔ لیکن اگر یہ غلط اور ناجائز خواہش ہے تو ان نشانات بڑھ جاتی ہیں۔

جرمنی میں بچوں کے ادب کے حوالے سے تربیتی ضمن میں یہ کتب اور ادیب پسندیدہ ادیب و کتب ہیں جو عرصہ دراز سے بچوں کے سکولوں، کنڈر گارٹن، کتب خانوں اور گھروں کے بک شیلف میں موجود ہونا لازمی ہیں۔
جرمنی کی طرح دنیا کی کوئی بھی عقل مند قوم جب اپنے ماضی کے تجربات کو بنیاد بنا کر اپنا آج بہتر کرنے اور آنے والے کل کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اپنی نسلِ نو کی تربیت اور تعلیم کا سب سے اہم اور بنیادی کام قرار دیتی ہے اور ادب اس بنیادی کام میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے ہماری سرکار سے لے کر ہمارے سماج کے ہر گھرانے کا فرض ہے کہ وہ بچوں میں مطالعے کا رجحان بڑھانے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ہی ہمارے بچوں کے اُردو ادیبوں کا بھی فرض ہے کہ وہ بچوں کی عمر، ماحول، نفسیاتی و ذہنی سطح کے مطابق بچکانہ ادب سے بچتے ہوئے اپنے قلم کو سبق آموز بچوں کے ادب سے آراستہ کریں اور اُردو زبان کو عالمی زبان کی صف میں لاکر بہترین عالمی ادب پیش کرنے میں معاونت کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں