خودنوشت ہمیشہ سے میری دلچسپی کا باعث رہی ہیں. جب بھی کسی کتاب کی دکان پر جانا ہوتا ہے، سب سے پہلے میری نگاہیں خودنوشت تلاش کرنے لگتی ہیں. سیکڑوں کی تعداد میں خودنوشت سوانح عمریاں پڑھنے کے بعد بھی تشنگی میں کوئی کمی نہیں آئی. اب بھی اس صنفِ ادب میں دلچسپی بدستور قائم ہے. ایک دلچسپ خودنوشت ”سفری زندگی‘‘ ایک عام آدمی کی سرگزشت ہے جو مصنف کی زندگی میں چھَپ نہ سکی اور اسے مصنف کے پوتے نے شایع کروایا ہے.
یہ آپ بیتی بابو غلام محمد مظفرپوری نے 1944ء میں اس وقت لکھنا شروع کی جب وہ افریقہ میں مقیم تھے. مصنف نے 1945ء کے ابتدائی مہینوں تک کے حالاتِ زندگی تحریر کیے ہیں. بابو غلام محمد مظفر پوری نے 1963ء میں وفات پائی مگر اپنی عمر کے آخری اٹھارہ برسوں کے حالات تحریر نہ کیے. جیسا کہ نام سے ہی ظاہر کہ مصنف کی زندگی کا بڑا حصہ سفر میں گزرا ہے، انہوں نے ہندوستان کا گوشہ گوشہ دیکھنے کے علاوہ برما، عراق، ایران، یوگنڈا اور کینیا میں کام کیا اور ان ممالک میں گھومنے کا موقع ملا. مصنف نے اپنی پیدائش، ابتدائی تعلیم، آٹھ دس سال کی عمر میں شادی اور پیشہ وارانہ تربیت کا تذکرہ تحریر کیا ہے. ممبئی اور اٹارسی کے حالات لکھے ہیں.
مدراس کے ایک علاقے میں ایک شخص حیدر کا واقعہ دلچسپی کا حامل ہے. وہ ایک ایسا شخص تھا جو بے خوفی سے سانپوں کو مار ڈالتا تھا اور آس پاس کے علاقوں میں بھی سانپ پکڑنے اور مارنے کا ماہر مشہور تھا، رات سوتے وقت سانپ کے کاٹنے سے ہی اس کی موت ہوگئی.
مصنف کا انداز تحریر سادہ اور رواں ہے. وہ تصنع اور بناوٹ سے بے نیاز نہایت کھرے انداز میں گزرے واقعات لکھتے جاتے ہیں. بابو غلام محمد مظفرپوری خودپسندی اور ریا کاری سے کوسوں دور رہ کر عام بول چال کی زبان میں اپنے زندگی کے حالات لکھتے ہیں. ان کی خودنوشت آج سے تقریباً سو سال قبل لکھی گئی، اس لیے اس وقت کے لکھے گئے حالات تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں.
اس خودنوشت سے معلوم ہوتا ہی کہ سو سال قبل 1918ء میں کوئٹہ زاہدان ریلوے لائن کی تعمیر کے وقت ایک ہولناک حادثہ ہوا تھا جس میں پچاس سے زائد مزردو جان بحق ہوگئے تھے. اس وقت مصنف کی تنخواہ 120 روپے ہوا کرتی تھی.
اس خودنوشت میں 1918ء کے اخیر میں عراق کا سفر اور اس کا احوال پھر واپس ہندوستان آمد اور 1922ء میں برما میں ملازمت کے واقعات ملتے ہیں.
اسی طرح ایران میں ملازمت اور رضا شاہ پہلوی کے فوجی سے بادشاہ بننے، اہواز پر ایران کے قبضے کے واقعات بھی اس تاریخ کا حصہ ہیں جو مصنف کی نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہوئے.
بابو غلام محمد مظفرپوری کی اس آپ بیتی میں کینیا میں گزرے لمحات کا بھی ذکر ملتا ہے. مجموعی طور پر یہ ایک عام فہم، سادہ انداز میں لکھی ہوئی دلچسپ داستانِ حیات ہے.
یہ تاریخی خودنوشت قارئین تک کبھی نہ پہنچتی اگر مصنف کے پوتے ڈاکٹر ساجد علی اس کی اشاعت کے لیے سرگرم نہ ہوتے. ڈاکٹر صاحب کا شکریہ سب پر واجب ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے یہ دلچسپ پیرائے کی حامل خودنوشت سوانح حیات ہم تک پہنچی.
“بابو غلام محمد مظفرپوری کی سفری آپ بیتی، ’’سفری زندگی‘‘ – محمد اکبر خان اکبر” ایک تبصرہ
تبصرے بند ہیں
ہم نے پڑھی تھی کچھ یاد ہے
اس طرح کی تحریر مذید ہونی چاہئے