کاشف صدیقی کی 25 مختلف ممالک کے سفر کی داستان، ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ – ثاقب محمود بٹ

”سفری داستان‘‘ یا ”سفرنامہ‘‘ کے ذریعے کوئی ادیب، قارئین کو اپنے سفری حالات و واقعات اور کیفیات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس سفری روداد کو آپ بیتی کی ایک قسم کہا جا سکتا ہے. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفرنامہ اُردو اصنافِ ادب میں ایک منفرد، امتیازی اور نمایاں‌ مقام حاصل کر چکا ہے. کہتے ہیں کہ سفرنامہ میں دو خوبیاں ضرور ہونی چاہیں: ایک تو قاری کے دل میں سیر و سیاحت کا شوق پیدا کر دے اور اگر پہلے سے موجود ہے تو سفرنامہ آتشِ شوق کو تیز تر کر دے، دوسری یہ کہ منظر کشی ایسی مکمل اور جاندار ہو کہ ہر منظر کی صحیح اور سچی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جائے. ہمارے زیرِ مطالعہ سفرنامہ ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ میں یہ دونوں خوبیاں پائی جاتی ہیں. یہ کتاب کاشف صدیقی صاحب کی تحریر کردہ ہے.
کاشف صدیقی کو حکومتِ پاکستان، پاک فوج، تدریسی شعبے اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ 30 سال سے زیادہ کا پیشہ ورانہ تجربہ حاصل ہے۔ آپ نے پاکستان کے علاوہ ایران، چین، برطانیہ، فلپائن، یمن، اُردن، قازقستان، جنوبی سوڈان، ترکی، شام، لیبیا اور سعودی عرب میں مختلف عہدوں پر خدمات سرانجام دی ہیں۔ ملٹری کالج آف انجینئرنگ، رسالپور سے سول انجینئرنگ کی ڈگری اور یونیورسٹی آف لیڈز، انگلینڈ سے جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) اور ایم بی اے میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں آپ متعدد تحقیقی مقالات کے مصنف بھی ہیں۔
زیرِ مطالعہ سفرنامہ ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ کاشف صدیقی کی اقوامِ متحدہ میں گزاری ہوئی زندگی کے تقریباً 15 سالوں اور 25 ممالک کے اسفار اور یاداشتوں پر مشتمل ہے جہاں مصنف نے بین الاقوامی سول سرونٹ کے طور پر یا تو کام کیا ہے یا کسی تربیت میں شرکت کی ہے۔ یہ کتاب ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے عملے کے ایک رکن کی زندگی کے بارے میں ہے۔ قارئین مصنف کی زندگی میں پیش آنے والے تجربات و واقعات کو حقیقی طور پر محسوس کر سکتے ہیں جو ان ممالک میں قیام کے دوران کاشف صدیقی کو پیش آئے۔
کتاب ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ میں جن ممالک کا احوال اور تصاویر پیش کی گئی ہیں ان میں‌ یمن، فلپائن، اُردن، شام، قازقستان، جنوبی سوڈان ترکی، لیبیا، لبنان، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، سویڈن، ناروے، آئرلینڈ، جرمنی، آسٹریا، ترک جمہوریہ شمالی قبرص، سعودی عرب، بحرین، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، مصر، تیونس، تاجکستان اور آرمینیا شامل ہیں.
مصنف نے کتاب کا انتساب اُردو سے ناآشنا اپنی بیٹی رامین کے نام لکھے ایک شعر سے کیا ہے:

وہ جو خواب تھے ہمارے چھُپی چاہتیں ہماری
ملیں ورثے میں تمہیں یہ سبھی حسرتیں ہماری

15 سالوں پر محیط اس سفرنامہ میں 15 سفری مضامین شامل ہیں اور 25 ممالک کے سفروں کا حال درج کیا گیا ہے. مصنف کو کتب بینی کا شوق بچپن سے تھا اور چھوٹی عمر میں‌ ہی آپ نے نمایاں مصنفین کی اکثر کتب پڑھ لی تھیں. مصنف کا تعلق چوں کہ چار نسلوں سے فوج سے رہا ہے تو آپ نے بھی فوج میں ہی شمولیت اختیار کی. والد محترم کی ہر سال دو سال بعد مختلف علاقوں میں‌ پوسٹنگ ہو جایا کرتی تھی تو تبدیلی کے اس لگارتار سفر نے مصنف کو بھی مختلف چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دی جس کے باعث آپ خود بھی ملازمت کے سلسلے میں مختلف ممالک میں تعینات رہے.
اس کتاب کے مطالعہ سے ہی یہ پتا چلتا ہے کہ مصنف سکواش، ٹینس، کرکٹ، ہاکی اور سوئمنگ سمیت بہت سے کھیلوں میں نہ صرف شامل رہے ہیں بلکہ اچھے لیول پر مختلف مقابلوں میں شرکت کر کے ٹرافیاں اور میڈلز بھی جیت چکے ہیں.
عالمی ادارہ میں شمولیت کے علاوہ کاشف صدیقی پاک فوج، وزارتِ دفاع، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، وزارتِ ٹیلی مواصلات، وزارتِ خوراک و زراعت و لائیو سٹاک، محکمہ منصوبہ بندی و ترقی اور یونیورسل سروس فنڈ سے منسلک رہے ہیں.

اس کتاب کی ایک خوبی جو اسے باقی کتب سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ کہ مصنف کا تعارف ان کی والدہ محترمہ، ثریا خالد صاحبہ نے تحریر کیا ہے. جب کہ لکھنے کے حوالہ سے مصنف کا کہنا ہے کہ انہیں یہ فن اپنی والدہ کی جانب سے عطا ہوا ہے جو اپنے زمانے میں طنز و مزاح لکھتی رہی ہیں. تو اس کتاب میں شامل ”تعارف‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ مصنف کی والدہ بھی اپنے وقت کی ادیبہ رہی ہیں. محترمہ ثریا خالد بھی کاشف صدیقی کے ذوق و شوقِ مطالعہ کی قائل ہیں. انہوں نے اس تعارف میں کوکنگ میں مہارت کے حوالہ سے ایک انکشاف یہ بھی کیا کہ:
”مسلح افواج کی تربیت نے جہاں (کاشف صدیقی کو) ایک اچھا منظم انسان بنایا وہاں اقوامِ متحدہ کی خانہ بدوش زندگی نے خوش ذائقہ کھانا پکانے کی صلاحیت کو اجاگر کیا.‘‘ اس کتاب میں آگے جا کر مصنف خود بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ یمن میں قیام کے دوران جب عرصہ تین ماہ تک ان کے رفیقِ کار ڈونلڈ ان کے لیے کھانے کا اہتمام کرتے رہے تو مجبورآٓ انہیں خود بھی کوکنگ کا سفر شروع کرنا پڑا.
اسی طرح مصنف نے یمن میں رہتے ہوئے یمنی قوم کی قاط سے محبت کا قصہ بھی بہت مزے سے بیان کیا ہے کہ کس طرح یہ قوم قاط کے پتے کھانے کی دیوانی ہے. کاشف صدیقی ایک جگہ لکھتے ہیں:
”یقینآٓ یمنی بہادروں کا عربی لباس، سر پر پہنا کُوفیۃ، کمر میں چوڑی یمنی بیلٹ اور اس کے اندر لگا زمبیا خنجر کیا ہی خوب صورت نظارہ ہوتا اگر اس خنجر کے دستے پر لٹکا شاپر اور اس میں موجود قاط کے پتے منظر کا بیڑا غرق نہ کر رہے ہوتے.‘‘
مصنف نے اپنے دورہ فلپائن کے بارے میں لکھا ہے کہ کیسے جذبہ ہمدردی نے انہیں فلپائن جا پہنچایا:
”فلپائن، جس کے بحر کی موجوں میں سدا اضطراب رہتا ہے اور نتیجتآٓ ہر سال کوئی نہ کوئی سمندری طوفان اس کے کسی نہ کسی علاقے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے. اس تباہی سے نپٹنے کے لیے مختلف بین الاقوامی اداروں اور اقوامِ متحدہ سے مدد کی اپیل کی جاتی ہے. اس بار منڈاناؤ کا علاقہ طوفان کی زد میں آیا تھا. میں یمن سے واپس پاکستان آیا تھا اور میرا کنٹریکٹ ختم ہونے کو تھا. طوفان سے متاثرہ علاقوں میں مزید مدد کی ضرورت پڑی تو انفارمیشن مینجمنٹ کے لیے مجھ سے بھی پوچھا گیا کہ کیا میں فلپائن جانے کے لیے تیار ہوں؟ میرا جواب ہاں میں تھا.‘‘
مصنف اُردن میں پیش آئے ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”امریکی ایمبیسی میں ایک پاکستانی نژاد امریکی فیملی کام کرتی تھی. ان سے جان پہچان ہو گئی. کئی بار ہم ان کے گھر گئے اور پھر ان صاحب کو گھر آنے کی دعوت دی، یوں وہ صاحب پہلی بار ہمارے گھر آئے. جمعہ کی نماز کا وقت ہو گیا، ان صاحب کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی جو شاید مجبوری میں انہوں نے مان لی. بعد میں ان کی بیگم نے ہنستے ہوئے ہماری بیگم کو بتایا کہ وہ صاحب پہلی بار مسجد گئے تھے اور لگاتار پریشانی میں رہے کہ کیا کرنا ہے. یقینآٓ بعد میں ہمیں کوس رہے ہوں گے کیوں کہ اس کے بعد وہ صاحب کبھی ہمارے گھر نہیں آئے.‘‘
وہیں اُردن میں گیلی ریت چہرے پر لگانے کا واقعہ بھی اس کتاب میں شامل ہے کہ اس ٹوٹکے کو آزمانے کے بعد، بہت دن تک مصنف کو اینٹی الرجی کریم کی محتاجی رہی. دمشق میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے مزار پر حاضری کو مصنف زندگی کے یادگار لمحات میں سے ایک قرار دیتے ہیں.

قازقستان میں قیام کے دوران یورت خیمے میں رہنے کا دلچسپ تجربہ بھی کاشف صدیقی نے بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے کہ بستروں والے اس خیمے کا سائز اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ پورا خاندان اس میں سما جائے اور پھر بھی خاطرخوا جگہ بچ جائے. مزید مصنف کے، بذریعہ روڈ قازقستان سے کرغزستان تک کیے گئے سفر کی رُوداد بھی اس کتاب میں شامل ہے. کرغزستان اور تاجکستان میں موجود بھکاریوں اور پیشہ ور خواتین کی موجودگی کا ذکر بھی وہاں کے سفر و قیام کے باب میں موجود ہے. مصنف نے جنوبی سوڈان میں وی آئی پی کلچر اور فوجی کانوائے کے پروٹوکول کا ذکر بھی مختصر انداز میں کیا ہے کہ جس میں رکاوٹ بننے والے کی تواضع تھپڑوں اور مُکوں سے ہوتی تھی. تکلیف دہ بات تب ہوئی جب ان کی ایک رفیقہ کار کو بھی اس امتحان سے گزرنا پڑا.
ترکی میں سفر کے دوران مصنف نے ترکوں کی اپنی زبان سے محبت اور دیگر زبانوں، بالخصوص انگریزی سے لاتعلقی کو بھی اس سفرنامہ میں موضوع بنایا ہے. یہ الگ بات ہے کہ مصنف نے اپنے ہیئر ٹرانسپلاںٹ کا ٹریٹمنٹ بھی ترکی سے ہی کروایا تھا. ترکی کے اس سفر میں کاشف صاحب نے قونیہ میں مولانا جلال الدین رومیؒ کے مزار پر حاضری بھی دی تھی.
کاشف صدیقی نے اس کتاب میں، یمن میں خود کو ناپسندیدہ شخص قرار دینے کا واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ جب انہیں اپنے سی وی میں پچھلے بیس سال سے قبل کی ملازمت وغیرہ کا ذکر نہ کرنے پر اس مشکل وقت سے گزرنا پڑا. اس واقعے کے بعد آپ دفتری خدمات کی ادائیگی کے سلسلے میں‌ لیبیا چلے گئے. مصنف نے عالمی وبا کورونا کے دوران، مختلف ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گزارے دنوں کے حالات بھی اس سفرنامہ میں شامل کیے ہیں. علاوہ ازیں لبنان کے سفر کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ، ناروے، سویڈن، جرمنی، اٹلی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، جنوبی افریقہ اور مختلف جگہوں پر حاصل کی گئی ٹریننگ کا حال بھی کاشف صاحب نے سپردِ قلم کیا ہے. ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ میں جرمنی کے شہر ہیمبرگ کے شیشوں والی کھڑکیوں میں موجود حسیناؤں کا ذکر بھی معروضی طور پر کیا گیا ہے. ساتھ ہی مصنف نے سوئٹزرلینڈ میں پیش آنے والے ناخوش گوار واقعہ کا ذکر بھی کیا ہے کہ جہاں جرائم پیشہ لوگ مصنف کا پرس چھین کر اور ان پر تشدد کر کے بھاگ گئے اور پولیس بھی داد رسی نہ کر سکی.
آسٹریلیا نوردی کا ذکر کریں تو ہوٹل کی آسٹریلین ریسیپشنسٹ کے بغیر کہانی ادھوری رہتی ہے کہ جس کی جانب سے مصنف کا پرتپاک انداز میں استقبال کرنا مصنف کی بیگم کو ناگوار گزرا. ریسیپشنسٹ کئی دن تک ایسے ہی اپنے خلوص کا اظہار کرتی رہی اور مصنف کی بیگم اپنی ناپسندیدگی کا.
مصر کے سفر کے دوران مسافروں اور سیاحوں کے ساتھ ہونے والی دھوکہ بازیوں کا ذکر بھی ہمیں اس کتاب میں ملتا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی خصلت ہر ملک اور علاقہ میں ایک جیسی ہی ہے.

کاشف صدیقی صاحب کے سفرنامہ ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ کا تعارف لکھتے ہوئے اگر ممتاز شاعرہ اور مصنفہ، بشریٰ خلیل اور عالمی ادارہ صحت میں کاشف صدیقی کے رفیقِ کار، زائد الناجی کی رائے شامل نہ کی جائے تو مناسب نہ ہوگا. بشریٰ خلیل رقم طراز ہیں:
”کاشف صدیقی کی کتاب ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ روایتی سفرنامہ نہیں کہ سرسری اس جہان سے گزر گئے بلکہ یہ دورانِ ملازمت ان کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے جو انہوں نے مختلف ممالک میں قیام کرتے ہوئے جمع کیا. ہر ملک کے جغرافیائی اور موسمی حالات، قابلِ دید مقامات کی دلفریبی کا بیان، لوگوں کی بُود و باش، طرزِ زندگی اور تہذیب و کلچر کا مرقع پیش کرنے کے ساتھ ساتھ قومی مزاج کا تذکرہ بھی اس کتاب میں تفصیلآٓ شامل ہے.‘‘
اسی طرح زائد الناجی کتاب ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”(اس کتاب میں‌) ہلکے پھلکے اور دلچسپ انداز میں تحریر کیے گئے واقعات نہ صرف ان (کاشف صدیقی) کے تجربات کا نچوڑ ہیں بلکہ ان کی زندگی کا آئینہ بھی. کاشف کا سفراس کتاب کی تخلیق کے بعد بھی جاری رہے گا اور ان کے گذشتہ واقعات کی تشریح اور علم میں اضافہ بھی ہو گا. یہ کتاب ان کی، مستقبل میں آنے والی کتابوں کی ایک ہلکی سی جھلک ہے. امید ہے ان کا قاری نہ صرف اس سے محظوظ ہوگا بلکہ کچھ سیکھ بھی سکے گا.‘‘

اس کتاب میں ہی ہمیں مصنف کی طرف سے ایک خوش خبری پڑھنے کو ملتی ہے جو ان کی آنے والے نئی کتاب بارے ہے. کتاب ”نئی جہت‘‘ مصنف کی سول سروسز کے دس سالوں پر محیط واقعات پر مبنی ہے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ”کچھ منصوبے انسان اپنی سوچ اور حالات و واقعات کی بنیاد پر بناتا ہے لیکن اصل منصوبے انسان کے لیے اللہ تعالی نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیے ہوتے ہیں۔ میری ہر اس جگہ پر موجودگی جہاں پر کوئی نیا کام شروع ہو رہا ہوتا تھا، اس بات کی دلیل تھی کہ یہ میری پلاننگ سے بہت اوپر کی کوئی چیز ہے اور اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس جگہ پر موجودگی کی وجہ سے میرے سیکھنے کا عمل دوگنا تھا جو میرے کیریئر کو چار چاند لگا تا چلا گیا۔ میرا ہر قدم غیر ارادی طور پر مجھے ”نئی جہت‘‘ کی طرف لے جاتا چلا گیا۔‘‘
”دیس پردیس کا مسافر‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ یہ سفر نامہ 138 صفحات پر مشتمل ہے جن میں 41 رنگین تصاویر بھی شامل ہیں. اس کتاب کی قیمت سولہ سو روپے مقرر کی گئی اور اسے بہت اہتمام کے ساتھ اسی سال (2023ء) مارچ میں شائع کیا گیا تھا.

4 تبصرے “کاشف صدیقی کی 25 مختلف ممالک کے سفر کی داستان، ”دیس پردیس کا مسافر‘‘ – ثاقب محمود بٹ

  1. آداب ۔۔ کاشف صدیقی صاحب کا سفرنامہ” دیس پردیس کا مسافر ” کس ادارے نے شائع کیا ہے ۔اسکے ملنے کا پتا فراہم کیجیئے تاکہ منگوایا جاسکے ۔

    1. آپ یا تو 03009746040 کے ذریعے آرڈر دے سکتے ہیں یا سعید بک بینک F7 یا Mr Books F6 اسلام آباد سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد یہ پورے پاکستان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسٹورز پر بھی دستیاب ہوگا۔

  2. ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی، ورلڈ ریکارڈ ہولڈر says:

    جی مجھے بھی مطالعہ کرنا ہے

    1. آپ یا تو 03009746040 کے ذریعے آرڈر دے سکتے ہیں یا سعید بک بینک F7 یا Mr Books F6 اسلام آباد سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد یہ پورے پاکستان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسٹورز پر بھی دستیاب ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں