ممتاز شاعرہ اور معلمہ، پروفیسر ڈاکٹر نویدہ کٹپر، فن اور شخصیت – سید فیاض الحسن

جمالیات کے حسین تر لمحات انسانی تصور میں غوطہ زن ہو کر گہرائیوں سے نکلنے والے احساسات و جذبات کی روانی جھرنوں کی مانند بہتی نظر آئے تو وہ شاعری کہلاتی ہے. اس خوب صورت آوازِ دل کا اظہار نویدہ کٹپر نے ایک خوش گوار ملاقات کے دوران کیا. گہرے درد و غم کی کیفیت کو جب سپردِ قرطاس کیا جائے تو کچھ وقت کے لیے سکون کا سانس لیتے ہوئے اسے درد کی دوا سمجھ کر ڈاکٹر نویدہ کٹپر نازک، حساس اور گہرائیوں میں شاعری کرنے کے سلیقے سے بخوبی آشنا ہیں.
نوجوان شاعرہ ڈاکٹر پروفیسر نویدہ کٹپر، نو ڈیرو لاڑکانہ میں پیدا ہوئیں. آپ کی والدہ کا شمار بہترین لکھاریوں میں کیا جاتا ھے. ادبی ماحول و پرورش کے باعث بڑی بہن ”عینی سحر‘‘ (عزیز بیگم) جو کہ شاعرہ، ادیبہ، کہانی نویس ہیں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا. دورانِ تعلیم، ساتویں جماعت میں پہلا کلام سندھی زبان میں پڑھا:
کاش میں کوئی مسیحا ہوتی
تمہیں ہر کرب سے بچا لیتی
تمہارے درد و الم کو
جلا کر راکھ کر دیتی
تمہارے وجود کو خود میں سما لیتی
تجھے دل کی ہر دھڑکن میں
ہر سانس کی روانی میں چھپا لیتی
درد کا درمان بنتی
زخموں کا مرہم بنتی
کاش میں کوئی مسیحا ہوتی…

نویدہ کٹپر کو دورانِ تعلیم سے ہی سکول کالج کے سٹیج ڈراموں میں اداکاری کے علاوہ فن مصوری سے بھی گہرا شگف ہے. آپ نے اعلیٰ و ثانوی تعلیم کے بعد سندھ لاء کالج سے ایل، ایل، بی، سندھ یونیورسٹی سے ایم بی اے، اقرا یونیورسٹی کراچی سے ایم فل اور یونیورسٹی آف ملایا (ملائشیا) سے، پی ایچ ڈی، کے سند حاصل کی. جس کی بناء پر اسٹنٹ پروفیسر، آی بی اے، یونیورسٹی آف سندھ میں تعینات ہوئیں جہاں پر بی بی اے اور ایم بی اے کے طالب علموں کو اپنے تجربات و علم سے منور کر رہی ہیں. واضح رہے کہ یونیورسٹی آف ملایا میں ایوینٹ مینجمنٹ، ڈائریکٹر آف پاکستانی سٹوڈنٹس کے فرائض بھی انجام دے چکی ہیں جب کہ سارنگا لٹریری اینڈ کلچرل سوسائٹی کی سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات جاری ہیں.
ڈاکٹر نویدہ کٹپر ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنا چاہتی تھیں مگر قسمت نے فلاسفی ڈاکٹر بنا دیا. ان کی پہلی شاعری کی کتاب ”اجنبی جزیروں پر‘‘ کے عنوان سے شایع ہو چکی ہے جس کی تقریب پزیرائی ”بزمِ ندیم‘‘ کے روح رواں، ندیم خان زادہ بھی منعقد کر چکے ہیں.

دوسری کتاب سندھی زبان میں ”ادھورا خواب‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جس کی تقریب رونمائی اسلام آباد میں منعقدہ ”پاکستانی زبانوں کا ادبی میلہ‘‘ میں ہوئی. علاوہ ازیں ڈاکٹر نویدہ کٹپر کی تین کتابیں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جو کہ عنقریب منظر عام پر آجائیں گی.
ہر تخلیق کار اپنی شخصیت اور علمیت کا اظہار مختلف انداز سے کرنے کا خواہاں ہوتا ھے مگر ڈاکٹر پروفیسر نویدہ کٹپر اپنے فرائض سے غافل ہوئے بغیر جمالیات کے اظہار کے لیے بے چین نظر آتی ہیں. آپ کی والدہ کی تربیت اور شفقت فن شاعری میں آپ کے مشعلِ راہ ثابت ہوئی. یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں اپنی عمر سے زیادہ بڑے اور گہرے تخیل میں احساسِ درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا نظر آتا ہے.
گر تاریخ کی کتابوں کی گرد جھاڑی جائے تو اس حقیقت سے انکار ناممکن نظر آئے گا کہ بادشاہوں کی بیٹیوں اور نامور شعراء کی بیگمات نے بھی شاعری کی اور دورِ نبوتﷺ سے قبل گلیوں، بازاروں میں مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے اور با مقصد شاعری کو باقاعدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا تھا جسے پڑھ کر داد و ستائش کے علاوہ اصلاح بھی ممکن نظر آتی تھی. عصرِ حاضر میں شاعرات کو محض حسن و نسوانیت کی بناء پر شاعرہ سمجھا جاتا ھے اس کے برعکس شاعرات کو دشوار کن مراحل کے باوجود اظہارِ جمالیات کے لیے وہ مواقع میسر نہیٰ جو کہ ہونے چاہیں. تنقید اور الزام تراشی کا سہارا لے کر شاعرات کی صلاحیتوں کو زیر کیا جاتا ہے. اس ضمن میں صرف یہ کہوں گا کہ شاعرات کا مقام شاعروں سے بھی زیادہ ہے. شاید اسی لیے علامہ اقبال نے وجودِ زن کو کائنات کے رنگ سے تشبیہ دی ہے. واضح رہے کہ نویدہ کٹپر اپنی مادری زبان سندھی ہونے کے باوجود اُردو پر مکمل عبور رکھتے ھوئے اُردو لہجہ میں شاعری کر رہی ہیں.
اردو سندھی ادب کی باشعور تعلیم یافتہ پروفیسر ڈاکٹر نویدہ کٹپر کی تخلیقِ اظہار میں دوسروں کے لیے درد دل و احساس نمایاں نظر آتا ہے. ان کی شاعری، کسی کو بھی نشانہ بنائے بغیر تمام مروجہ اسلوب و روایت کے عین مطابق احساس کی گہرائیوں سے سپرد قرطاس کی گئی ہے بلکہ درد کی زنجیر میں لپٹی ہوئی شاعری، پڑھنے کے بعد قاری کو اپنے سحر میں بھی جکڑ لیتی ہے.
ساتویں جماعت سے شاعری کا آغاز کرنے والی نویدہ کٹپر نے اپنے فنِ شاعری کے ذوق کے ساتھ ساتھ پڑھنے کے شوق کو بھی برقرار رکھتے ہوئے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی اپنی شاعری کو کتابی شکل دینے کا منصوبہ ترتیب دیا تھا جو کہ آپ کی سوچ کے عین مطابق ہی مکمل ہوا. پروفیسر ڈاکٹر نویدہ کٹپر کی اردو شاعری کی کتاب ”اجنبی جزیروں پر‘‘ ادبی افق پر قوس و قزح کی مانند رنگ بکھیرتی ہوئی نظر آتی ہے. ان کی غزلیں معاشرے کے درد میں ڈوبی دکھائی دیتی ہیں اور اظہارِ جمالیات کی کہکشاں میں ایک منور ستارے کی مانند ادبی حلقوں میں نہ صرف سراہی جا رہی ہیں بلکہ آپ کے احساسات اور لطیف جذبات کا اعتراف بھی کیا جارہا ہے. ڈاکٹر نویدہ کٹپر کے اشعار دھیمے دھیمے سلگنے والے اور تیز گرنے والی آبشار کی مانند اپنی اہمیت کا اقرار کرا رہے ہیں. اصل تخلیق کار کی مانند ارد گرد کے ماحول اور حلقہ احباب کو درپیش حقائق کا اظہار ہی ڈاکٹر صاحبہ کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے. بقول نویدہ کٹپر…
میں نے مٹایا خود کو تیری خاطر ہے
پھر بھی نہیں پگھلا ہے پتھر جیسا دل
———
ہر ایک امتحان میں تو ہم سرخ رو ہوئے
ھم کو بتائیں کتنا ہمیں آزمائیں گے

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ نویدہ کٹپر کو مصوری کا بھی شوق ہے. ایک دن، دوران مصوری، بے اختیار زبان سے یہ الفاظ نکلے:
میں خشک ہوا کا جھونکا ہوں
جو صحراؤں میں رہتا ہوں
ہوں زرد سا پتا پت جھڑ کا
جو اپنی شاخ سے ٹوٹا ہوں
دنیا کی نظر میں زندہ ہوں
لیکن اندر سے مردہ ہوں

رنگ و نور، جذبات، اپنائیت، احساس اور برسات کی جھلک کتاب ”اجنبی جزیروں پر‘‘ میں موجود 107 نظم و غزلوں کے علاوہ آخری صفحات پر 18 شعر، شاعرہ کی صلاحیتوں کا بر ملا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں. اس مقَام تک پہچنے میں نویدہ کٹپر کن مراحل سی گزری ہوں گی، اس کا اندازہ تو کتاب پڑھ کر ہی لگایا جا سکتا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں