معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق

”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ طارق محمود مرزا کا ایک دل چسپ، سحر انگیز اور معلومات سے بھرپور سفر نامہ ہے جس کے 332 صفحات میں شمالی یورپ کے حصّے سکینڈے نیوین کے چار ممالک (ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فِن لینڈ) اور ایک عرب دنیا کے خوب صورت اور دل کو بھا جانے والے ملک قطر کی سیرو سیاحت، تاریخ و ثقافت، وہاں کے لوگوں کی ترقی و خوش حالی کا راز، عوام کے رہن سہن کا انداز، وہاں کی حکومتوں کے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات، وہاں رہنے والے پاکستانیوں کے حالات، ان کی ادبی خدمات، ادب سے لگاؤ رکھنے والے افراد سے ملاقات، ان ملکوں میں سٹوڈنٹ ویزے پر جانے والے طلباء کو درپیش مسائل، محنت، مزدوری کرنے پاکستانیوں کے سخت حالات اور پھر ان کے وہاں سیٹل ہونے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو دل فریب اور دل نشیں الفاظ میں پیش کیا گیا ہے. یہ سب پڑھ کر قاری، مصنف کے قلم کی بدولت تصور کی دنیا میں کھو کر ان ممالک کے سب واقعات و حالات، احوالِ ملاقات اور خوب صورت مقامات کی سیر و سیاحت سے محظوظ ہونے لگتا ہے.
میرا اس خوب صورت اور بہترین سفر نامے سے تعارف اس وقت ہوا جب میرے ایک بزرگ دوست محترم محمد انجم بوٹا صاحب (مصنف سفرنامہ ”میاں چنوں سے ملائیشیا تک“) نے اس کا بہترین اور دل کو چھو جانے والا اقتباس اپنی فیس بُک وال پر شیئر کیا. جس میں انہوں نے آسٹریلین حکومت کی طرف سے عوام کو پہنچائی جانے والی آسانیوں اور سہولیات کا ذکرِ خاص کیا تھا، اس شیئر کیے گئے پیرا گراف نے دل پر ایسی تاثیر چھوڑی کہ میں اس کتاب کو منگوائے بغیر رہ نہ سکا۔
عید الفطر کی تعطیلات پر گھر آیا تو میری لائبریری میں موجود اس کتاب کے پرکشش سرورق نے مُجھے اپنی طرف کھینچ لیا اور پھر میں اس کی سادہ اور سلیس نثر کے سحر میں اس قدر مسحور ہوا کہ آخری صفحہ پر پہنچنے کا احساس تک نہ ہوا حالاں کہ میں اس کی سطور سے اپنے دل و دماغ کو آہستہ آہستہ وابستہ کررہا تھا کیوں کہ دل چسپی کی وجہ سے اس کے جلد اختتام کا خوف کھائے جا رہا تھا مگر آج وہ دن آگیا اور میں اس کے آخری لفظ پر پہنچ گیا۔
اس سفر نامے کے آخری صفحہ تک پہنچتے پہنچتے قاری پر طاری ہونے والا سحر حقیقی ہے جس میں وہ مصنف کے سفر شروع ہونے سے لے کر اختتام تک مبتلا رہتا ہے۔
طارق محمود مرزا، سکینڈے نیوین ممالک میں واقع سر سبز و شاداب پہاڑوں، بل کھاتے پرسکون سمندروں اور دریاؤں اور ان میں تیرتے بحری جہازوں، کشتیوں، آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی عمارتوں، انٹرنیشنل ایئرپورٹس کی اندرونی و بیرونی کہانیوں، مسافروں کے حالات و واقعات، سیاحوں کی سیرو سیاحت، ان کو پیش آنے والی مشکلات، اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور خوب صورت مسجدوں کے اندرونی و بیرونی نقشں و نگار کی اپنے قلم کی نوک سے ایسی پُرکشش اور دل فریب منظر نگاری کرتے ہیں کہ قاری کتاب پڑھتے ہوئے ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے. اس سفر نامے کی بدولت قاری یہ جان کر حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ان ممالک کے حکمران اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود، خوشحالی و ترقی اور خوب صورتی کے لیے کس قدر مُخلص ہیں اور وہ خود یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے ملک و قوم کے آج جو حالات ہیں ان کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
طارق محمود مرزا کا یہ سفر نامہ قاری کو مغربی معاشرے میں رہنے والے افراد کی سادہ اور پُرسکون زندگی سے روشناس کرواتا ہے. کتاب میں وہاں کے سادہ گھروں کی تعمیر و زنیت، ڈیری فارموں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کی قابلِ رشک حالات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے. شمالی یورپ کے ان ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت اور ضرورت کے مطابق وسائل کے استعمال کی اہمیت کو قاری کے سامنے نمایاں کیا گیا ہے تاکہ وہ مسائل میں گھری اپنی زندگی کو خود آسان بنا سکے. ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور فِن لینڈ جیسے ممالک میں ویسے تو بہت کچھ مشترک ہے مگر وہاں موجود سر سبز درخت، گھنے جنگلات اور گاڑیوں میں ڈیزل انجن کے استعمال سے احتیاط برتنے کی بدولت جو پرسکون اور ماحول دوست صاف شفاف فضا پیدا ہوئی ہے اس کے وہاں کے لوگوں پر پڑنے والے صحت مند اثرات سے قاری کو آگاہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے قابل ہو سکے اور اس کی عملی طور پر کوشش کرے۔
مصنف آخر میں قطر کی سیرو سیاحت کے لیے نکلتے ہیں تو وہاں کی بلند و بالا عمارتیں اور سر سبز زمین کو دیکھ کر قطر کی حکومت کو داد دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ریتلے صحرا کو سر سبز میدان میں بدلنا مکمل طور پر مصنوعی ہے کیوں وہاں پر مٹی، گھاس، پھول سب کچھ دوسرے ممالک سے لائے گئے ہیں جو قطر کی خوب صورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں. میرے لیے سب سے زیادہ حیران کن معلومات یہ تھی کہ 2021ء تک قطر میں رہنے والے اصل قطریوں کی آبادی صرف اڑھائی لاکھ ہے جب کہ اس ملک کی کل آبادی ستائیس لاکھ ہے اور ظاہر ہے باقی سب لوگ دوسرے ممالک سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں۔ آخر میں مصنف عرب ممالک میں، خاص طور پر قطر میں، مزدوری کی غرض سے جانے والے پاکستانیوں کی مشکلات کو قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جسے پڑھتے ہوئے میرے تو کم از کم آنسو چھلک پڑے۔ یہ کتاب یقناً پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور سرو سیاحت کا ذوق اور تاریخ سے شغف رکھنے والے دوستوں کو یہ سفرنامہ ضرور ہی پڑھنا چاہیے کیوں کہ یہ صرف ایک سفر کی روداد ہی نہیں بلکہ شمالی یورپ سے متعلقہ معلومات کا ذخیرہ بھی ہے۔