ممتاز ادیبہ اور افسانہ نویس کائنات بشیر کا سفرنامہ ”خاموش نظارے‘‘ اپنے منفرد افسانوی اسلوب، شاعرانہ زبان اور مکالماتی طرزِ تحریر کے باعث روایتی سفرنامہ نگاری سے ہٹ کر ایک الگ شناخت کا حامل ہے۔ یہ محض سفری واقعات، مشاہدات اور سفری روداد کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فنکار کی حساس نظر سے دیکھے گئے لمحات کا وہ شعوری اظہار ہے جس میں کینیڈا کے مختلف شہروں کی تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی خصوصیات کو ایک تخلیق کار نے اپنے جذبات اور تخیل کے ساتھ اس طرح آمیز کیا ہے کہ ہر منظر قاری کے سامنے زندہ ہو کر سانس لینے لگتا ہے۔ وہ سی این ٹاور کی منظر کشی کچھ اس طرح کرتی ہیں ”جیسے لوگ لاہور دیکھے بنا نہیں رہ سکتے اس طرح یہ ٹاور دیکھنا لازم ہے. جوں جوں بلندی کی جانب جائیں تو ویسے ہی دم ہوا ہو جاتا ہے. زمین پیروں تلے سے نکلے چلی جاتی ہے. پھر سی این ٹاور کی لفٹ شیشے کی بنی ہے جس سے شہر صاف نظر آتا ہے. گھر کھلونا بن جاتے ہیں، ہائی بلڈنگز چھوٹے چھوٹے بلاکس میں بدل جاتی ہیں، جہاز والا منظر عیاں ہو جاتا ہے ورنہ برڈ ویو کی مدد سے اسے دیکھا سمجھا جا سکتا ہے.‘‘
کائنات بشیر نے اپنے اس سفرنامے میں جس فنی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کے افسانوی تجربے کی پختگی کی غماز ہے۔ ان کی تحریر میں مشاہدے کی گہرائی، بیان کی شگفتگی اور منظر نگاری کی وہ نفاست موجود ہے جو کسی بھی ادبی فن پارے کو ناقابل فراموش بنا دیتی ہے۔ وہ نہ صرف جگہوں کی ظاہری خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں بلکہ ان مقامات کے تاریخی، تہذیبی اور سماجی پس منظر کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بناتی ہیں، جس سے قاری کو نہ صرف ان شہروں کے بارے میں معلومات ملتی ہیں بلکہ وہ ان کے ماحول اور روح تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔
انہوں نے اپنے سفر نامے میں مانٹریال کی مختصر تاریخ کچھ اس طرح بیان کی ہے، ”مانٹریال کی جگہ پر یورپیوں کی آمد سے کم از کم دو ہزار سال قبل تک یہاں مختلف قسم کے مقامی خانہ بدوش قبائل آباد تھے. پھر یہاں مکئی کی کاشت شروع ہو گئی تھی اور اگلی چند صدیوں کے دوران مضبوط گاؤں بننا شروع ہو گئے تھے. اچھے خاصے قبائل یہاں آباد ہوئے جو یورپین کی آمد سے پہلے تک یہاں موجود رہے. ولے ماری (مانٹریال کا پرانا نام) جلد ہی سمور کی کھال کا اہم مرکز بن گیا اور یہاں سے شمالی امریکہ کا راستہ کھل گیا. 1760ء تک کینیڈا فرانس کی ماتحت آبادی رہا جس کے بعد سات سالہ جنگ میں برطانیہ کی فتح کے بعد یہ شہر برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا. مونٹریال کو 1832ء میں شہر کا درجہ دے دیا گیا. 1860ء تک مونٹریال سب سے بڑا شہر اور کینیڈا کا غیر متنازعہ معاشی اور ثقافتی مرکز بن چکا تھا.‘‘
نیاگرا آبشار کے تذکرے میں مصنفہ نے جس طرح فطرت کے عظیم الشان مظاہر کو اپنے الفاظ میں سمویا ہے، وہ ان کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ پانی کا شور، چھینٹوں کا احساس، دھوئیں کی سی چادر اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے قوسِ قزح کے رنگ- یہ سب کچھ کائنات بشیر کے قلم سے ایسے ابھرا ہے کہ قاری کو محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ خود آبشار کے سامنے کھڑا ہے۔ ان کی منظر نگاری میں صرف آنکھوں سے دیکھی گئی چیزیں ہی شامل نہیں ہوتیں بلکہ وہ تمام تر کیفیات بھی شامل ہوتی ہیں جو کسی منظر کو دیکھتے ہوئے انسان محسوس کرتا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
”دن میں یہ پانی سفید دودھ کی دھاروں جیسے نظر آتے ہیں پر جیسے ہی یہ پانی نیچے گرتا ہے تو آبشار کی دھاریں رنگ بدلنے لگتی ہیں. کبھی آسمانی، نارنجی اور سورج نکلا ہو تو مزید رنگ بھی اس میں منعکس ہو کر خوبصورتی بکھیرنے لگتے ہیں. خود بخود آبشار کے اوپر مختلف رنگوں کی قوس قزح بن جاتی ہے، منظر کو گویائی ملنے لگتی ہے. اتنی بڑی آبشار اور اس پر بنتی رنگ برنگی پتنگیں قدرت کی کائنات تی دنیا کے کرشمے تو ہی تو ہیں جو صرف کینیڈا والوں کے حصے میں آئے ہیں.‘‘
سفرنامہ ”خاموش نظارے‘‘ میں مکالمات کا استعمال بھی ایک اہم خصوصیت ہے۔ یہ مکالمے نہ صرف تحریر کو جاندار بناتے ہیں بلکہ مقامی لوگوں کے مزاج، ان کے رہن سہن اور ان کی سوچ کو سامنے لانے کا بھی ذریعہ بنتے ہیں۔ کائنات بشیر نے ان مکالمات کو اس طرح تحریر کیا ہے کہ وہ بے ساختہ اور حقیقی محسوس ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کسی کافی شاپ میں بیٹھے ہوئے افراد سے گفتگو ہو یا پھر کسی سے معلومات حاصل کرنا، یہ تمام مکالمے سفرنامے کو ایک زندہ دستاویز کی شکل دے دیتے ہیں۔
زبان و بیان کے اعتبار سے یہ سفرنامہ اردو ادب میں اپنی مثال آپ ہے۔ کائنات بشیر نے جہاں سادہ، شستہ اور رواں زبان استعمال کی ہے وہیں ان کے اسلوب میں ایک خاص قسم کی شاعرانہ چاشنی بھی موجود ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ ان کے جملوں میں ایک طرح کا ترنم اور لہجے کی نزاکت پائی جاتی ہے جو ان کی تحریر کو دوسرے سفرناموں سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ مشکل الفاظ کے بجائے سہل اور پر اثر زبان استعمال کرتی ہیں جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
اس سفرنامے کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مصنفہ کا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ وہ نہ صرف مقامات کی تفصیل بیان کرتی ہیں بلکہ ان مقامات سے وابستہ اپنے جذبات، خیالات اور کیفیات کو بھی بے نقاب کرتی ہیں۔ اس طرح یہ سفرنامہ محض ایک رپورٹ یا ڈائری نہیں رہتا بلکہ ایک ایسی ادبی تخلیق بن جاتا ہے جس میں فنکارانہ حسن اور ذاتی تجربے کا امتزاج موجود ہوتا ہے۔
کائنات بشیر نے ”خاموش نظارے‘‘ میں سفرنامے کی صنف کو نئے امکانات سے روشناس کرایا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ سفرنامہ محض معلوماتی مضمون نہیں ہوتا بلکہ اس میں بھی وہ تمام ادبی خوبیاں موجود ہو سکتی ہیں جو ایک اچھے افسانے یا ناول میں پائی جاتی ہیں۔ ان کا یہ سفرنامہ نہ صرف کینیڈا کے مختلف شہروں اور مقامات سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ ایک حساس فنکار کی نظر سے دیکھی گئی دنیا کا ایک ایسا فنکارانہ اظہار بھی ہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے.
”خاموش نظارے‘‘ کا ہر صفحہ، ہر سطر اور ہر لفظ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کائنات بشیر نے اسے صرف ایک سفرنامہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک ادبی شاہکار کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف سفرنامہ نگاری کے شائقین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے بلکہ ہر اس قاری کے لیے ایک یادگار تحفہ ہے جو ادب میں فنکارانہ چابکدستی اور گہرائی کی تلاش میں ہو. کائنات بشیر نے اپنے قلم سے جو ”خاموش نظارے‘‘ تخلیق کیے ہیں، وہ دراصل اردو ادب کے افق پر ایک روشن ستارے کی مانند ہیں جو اپنی خاموشی کے باوجود یہ اعلان کر رہے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں بھی ان کی چمک دمک برقرار رہے گی۔
