اختر شہاب بطور کہانی نویس اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں. انہوں نے نہایت عمدہ اور عام فہم اسلوب اختیار کرتے ہوئے اپنے اسفار کا حال بعنوان ”سفرین کہانی‘‘ تحریر کیا ہے. ان کی یہ کتاب واضح اور متاثر کن تحریر کی دل آویز جھلک پیش کرتی ہے. وہ نہایت باریک بینی سے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر، واقعات خیالات اور احساسات کو رقم کیے چلے جاتے ہیں. وہ جس تفصیل سے گلگت کے سفر کو احاطہ تحریر میں لائے ہیں، ایسا لگتا ہے ان کی جزئیات نگاری کمال کی ہے. گلگت کے سفر کا جو بہترین نقشہ انہوں نے پیش کیا ہے وہ اس قدر جامع اور مکمل ہے کہ پورا منظر نامہ واضح طور پر قاری کے ذہن میں آجاتا ہے. بہتر ہوتا کہ وہ اپنے گلگت میں قیام اور وہاں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں بھی کچھ تحریر کرکے اس کتاب کا حصہ بنا دیتے. راولپنڈی سے گلگت تک ان کے سفر کی دلکش منظر کشی، جاندار اور دلچسپ ہے.
اسی کتاب کا دوسرا حصہ جو ”بارشوں کے شہر میں‘‘ کے نام سے کتاب میں شامل ہے، دراصل انڈونیشیا کے ایک شہر ”بوگور‘‘ کا سفرنامہ ہے. یہ سفرنامہ بھی وہی اسلوب لیے ہوئے ہے جو اختر شہاب کی خصوصیت ہے البتہ اس سفر نامے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر اپنے واقعات اور حالات لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کی بنیاد پر یہ خوبصورت سفرنامہ وجود میں آیا. اختر شہاب کے سفر ناموں میں خوبصورت مکالمے دلچسپی کے حامل ہیں جو قاری کو اس سفر کا ایک حصہ بنا دیتے ہیں اور تحریر کی آرائش مزید بڑھا دیتے ہیں. انڈونیشیا کے سفر نامے کا ایک اہم پہلو ایک پراسرار کردار سے متعلق ہے جو فلپائن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ایڈینا کا ہے. انہوں یہ لکھ کر پراسراریت میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ آخر ایڈینا کون تھی جو ان کے ساتھ بات چیت کرتی رہی، گھومتی پھرتی رہی اور اپنی داستانِ حیات جکارتہ کے ایئرپورٹ پر مصنف کو سناتی رہی. کبھی کبھی حیرت انگیز طور پر اوجھل بھی ہوتی رہی مگر وطن واپسی پر انھیں ویب سائٹ پر مندوبین کی فہرست میں اس کا نام ان لوگوں میں شامل دکھائی دیا جو کسی سبب سے اس تربیتی کورس میں شامل نہ ہو سکے تھے. اختر شہاب کا یہ سفرنامہ تصاویر اور نقشے سے بھی مزین ہے. اگر رنگین تصاویر اس کتاب میں شامل کر دی جاتیں تو سفرنامے کا لطف دو بالا ہو جاتا.
سفر نامے کی سب سے بڑی خوبصورتی محترم اختر شہاب کی عمدہ نثر ہے. ان کا طرزِ تحریر دلچسپ اور دل میں اترنے والا ہے. ان کی نثر قاری کو اپنی جانب کھینچنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے جس میں نہ تو کوئی تصنع دکھائی دیتی ہے اور نہ کسی قسم کا کوئی مصنوعی پن نظر آتا ہے. کوئی بناوٹ دکھائی نہیں دیتی بلکہ رواں، شستہ اور عام فہم الفاظ پر مبنی یہ تحریر حافظے پر نقش ہو جاتی ہے. اختر شہاب کی لاجواب نثر اس بات کی دلیل ہے کہ مسجع و مقفی عبارات کے بغیر بھی عمدہ ادبی تخلیقات ممکن ہیں.
