مسافر کا دوسرا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر

ایک مسافر طویل سفر سے آخر کار لوٹ آیا ہے حالاں کہ ہنوز اس کا کہنا ہے کہ ”صحرا میں ٹھکانہ بنتا تھا‘‘ مگر ہمیں خوشی ہے کہ مسافر ہمارے درمیان ہی موجود ہے اور اس نے لق ودق صحرا میں ٹھکانہ نہیں بنایا.

کچھ تلخ حقائق اتنے تھے
خوابوں کو مٹانا بنتا تھا
ہم اس کوچے میں جاتے تھے
پر لطف فسانہ بنتا تھا
تاریک تھی راہیں الفت کی
اس دل کو جلانا بنتا تھا
جب شہر کا دامن تنگ ہوا
صحرا میں ٹھکانہ بنتا تھا

ملتان کے معروف شاعر جمیل ہاشمی کا دوسرا شعری مجموعہ ”صحرا میں ٹھکانہ بنتا تھا‘‘، ان کی شاعرانہ عظمت و فن سخن وری کا آئینہ دار ہے، جس میں حمد و نعت اور منقبت، غزلیات، فردیات، قطعات، نظمیں اور سرائیکی کلام کی شمولیت نے اسے ایک مکمل ادبی منظر نامے کی صورت دے دی ہے۔ ان کا کلام نہ صرف روایتی شعری روایت بلکہ معاصر فکری و فنی تقاضوں کو بھی پورا کرتا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں کلاسیکی رچاؤ اور روحانی جہت بدرجہ اتم موجود ہے، وہیں عصری حسیات اور جدید لسانی تجربات بھی نمایاں ہیں، جو ان کے فن سخندانی کو منفرد بناتے ہیں۔
جمیل ہاشمی کی حمد و نعت میں جذبات کی سچائی اور فنی پختگی ملتی ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی سے والہانہ محبت کے ساتھ ساتھ صوفیانہ رنگ بھی جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے، جب کہ ان کی منقبت کے اشعار خلفائے راشدین سے گہری وابستگی کا پر عقیدت اظہار ہیں. جمیل ہاشمی کی منقبت نگاری اردو شاعری کے افق پر ایک درخشندہ ستارے کی مانند ہے جس کی ضوفشانی میں حبِ اہل بیت رض کے جذبات اپنی تمام تر رفعتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔

بے مثل بے مثال ولایت علی رض کی ہے
خیبر کے در پہ لکھی شجاعت علی رض کی ہے
علم و عمل کا ایک نمونہ تھی زندگی
عزیمت کا ایک درس شہادت علی رض کی ہے

ان اشعار میں ہاشمی صاحب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ولایت، بے مثل شجاعت اور لافانی شہادت کو احسن انداز میں پیش کرتے ہوئے ایک جانب تو ”بے مثل بے مثال ولایت‘‘ اور ”خیبر کے در پہ لکھی شجاعت‘‘ جیسے پرتاثیر استعاروں کے ذریعے تاریخی حقائق کو شعری جامہ پہنایا ہے، تو دوسری جانب ”علم عمل کا ایک نمونہ‘‘ اور ”عزیمت کا ایک درس‘‘ جیسی تراکیب کے ذریعے ان کی شخصیت کے جامع پہلوؤں کو نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے ہاں منقبت کا ہر لفظ اپنے دامن میں گہری معنویت اور عرفانی مفاہیم سمیٹے ہوئے ہے، جب کہ بحر و وزن کی برجستگی اور الفاظ کی ہم آہنگی نے اشعار کو ایک خاص طرح کی لطافت عطا کی ہے۔ ہاشمی صاحب کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی منقبت میں نہ صرف عربی و فارسی کی کلاسیکی روایت کو برتا ہے بلکہ اسے اردو کے سلیس اور رواں اسلوب میں ڈھال کر ایک ایسی شاعرانہ تخلیق کے پیکر میں تبدیل کیا ہے جو ان کی فنی مہارت کے اظہار کے علاوہ دلوں کو گرما دینے والی سادگی اور اثر انگیزی کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں حبِ اہل بیت رض کا جو پرتپاک اظہار ملتا ہے، وہ درحقیقت حبِ رسولؐ اور حبِ اصحابؓ کے ساتھ ایک مربوط نظامِ عقیدت کا حصہ ہے، جس میں کسی فرقہ وارانہ مخاصمت کے بجائے محبت و عقیدت کی خالص روایت جلوہ گر ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کی منقبت کا یہ شعر قابل توجہ ہے:

سنا جب واقعہ معراج کا تو اک پل میں ہی گواہی دی
صداقت پر یقین ایسا صداقت ناز کرتی ہے

یہی وہ خصوصیت ہے جو ہاشمی کی منقبت کو اردو ادب میں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔جیسے اقبال نے فرمایا تھا کہ:

اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابوبکر رض و علی رض ہشیار باش

جمیل ہاشمی صاحب کا اسلوب سادہ مگر پرتاثیر ہے، جس میں معنی و مفاہیم کی گہرائی پنہاں ہے۔ ان کی غزلیات میں روایت اور جدت کا حسین اور منفرد امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ غزل کے روایتی مضامین کو جدید انداز میں پیش کرتے ہیں، جہاں عشقِ حقیقی و مجازی کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل، انسانی المیے اور وجودی سوالات کا رنگ و آہنگ بھی محسوس ہوتا ہے۔ ان کا لہجہ لطافت اور مٹھاس سے لبریز ہے جس میں شیرینی اور گھلاوٹ کا لطیف احساس موجزن دکھائی دیتا ہے. عمومی اعتبار سے وہ سادہ اور رواں انداز میں اظہارِ ذات کرتے معلوم ہوتے ہیں البتہ ان کی شاعری میں فکری گہرائی کا عنصر بھی پوشیدہ ہے۔ ان کے ہاں غزل صرف جذبات کا اظہار کا وسیلہ ہی نہیں بلکہ زندگی کے تضادات اور تلخ حقائق کو بھی بیان کرتی معلوم ہوتی ہے:

تری چاہت کا سلسلہ ہوگا
مرے جذبے میں حوصلہ ہوگا
نہ سنو گے اگر مری فریاد
غلغلہ دہر میں بپا ہوگا

فردیات اور قطعات میں جمیل ہاشمی کا فن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ ان کی فردیات مختصر ہونے کے باوجود گہرے معانی لیے ہوئے ہیں، یہ معنویت ان کے قطعات میں موضوعاتی تنوع اور فکری پختگی اور برجستگی کو نمایاں کرتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے قطعات کے ذریعے اخلاقیات، سماجی رویوں اور روزمرہ زندگی کے مشاہدات کو انتہائی مختصر مگر پراثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔

ترکِ الفت پہ خود کیا مائل
اب ترستے ہو کیوں وفاؤں کو
رزق دیتی یہاں کی مٹی گر
کیوں بھلا چھوڑتا وہ گاؤں کو

ان کا کمال یہ ہے کہ وہ کم سے کم الفاظ میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں، جو قاری کے ذہن پر دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔ نظم نگاری کے میدان میں جمیل ہاشمی کا تخیل وسیع، مشاہدہ گہرا اور ہمہ گیر ہے۔ ان کی نظمیں ہماری تہذیبی روایات، شہری زندگی کی منظر کشی اور جدید معاشرتی مسائل کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ان کا لہجہ کہیں رومانی ہے تو کہیں پر حقیقت نگاری پر مبنی، مگر ہر حال میں اثر انگیزی میں اپنی مثال آپ ہیں. ان کی نظموں میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے عناصر بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، جہاں وہ روایت سے ہٹ کر نئے اسالیب اور علامتی اندازِ بیان کو اپناتے ہوئے احساسات کا ابلاغ موثر پیرائے میں کرتے ہیں۔ جمیل ہاشمی کی نظم”ملتان” اردو شاعری میں فنکارانہ خوبیوں اور ثقافتی گہرائی کا ایک شاہکار ہے۔ اس نظم میں شاعر نے ملتان کی تاریخی عظمت، روحانی روایات اور ثقافتی رنگا رنگی کو انتہائی سادگی مگر پرسوز تاثیر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ فنی اعتبار سے یہ نظم اپنی موزوں بحر، منتخب الفاظ کے بہترین چناو اور علامتی اندازِ بیان کی وجہ سے ممیز و ممتاز ہے۔ ”کتابت‘‘ اور ”خوش رنگ ثقافت‘‘ جیسے الفاظ نہ صرف ملتان کی علمی و ادبی میراث کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ شاعر کے استعارات کی وسعت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ لفظیات کے انتخاب میں سادگی اور روانی ترجیحاً دکھائی دیتی ہے، جیسے ”نامور‘‘ ”خوب‘‘، ”بہرگام‘‘ جیسے الفاظ بظاہر عام ہیں مگر ان میں معنوی گہرائی پوشیدہ ہے۔ نظم کا لسانی اسلوب تصوف اور تاریخ کے مابین ایک نازک توازن قائم کرتا ہے، جہاں ”تقدس تصوف‘‘ جیسی ترکیبیں روحانی فضا پیدا کرتی ہیں تو ”خوش رنگ ثقافت‘‘ جیسے پیرایے شہر کی زمینی حقیقتوں سے جوڑتے ہیں۔ ہاشمی صاحب نے موزونیت کو برقرار رکھتے ہوئے نغمگی اورتلازمات کے ذریعے نظم کو ایک خاص طرح کی غنائیت عطا کی ہے۔ ان تمام خصوصیات کے باوجود نظم کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ثقافتی علامتوں اور تاریخی حوالوں کو بھرپور انداز میں برتنے کے باوجود کسی قسم کے بوجھل پن کا شکار نہیں ہوتی۔ اس میں روایت اور جدیدیت کا امتزاج اس طرح رکھا کیا گیا ہے کہ یہ نہ صرف ملتان کی تہذیبی شناخت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اردو نظم کے فنی ارتقا میں بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ان کے ہاں غم محض زندگی کا رنگ نہیں بلکہ ایک علامت ہے جو تنہائی، ادسی اور وجودی کشمکش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں قاری کو فکری طور پر جھنجھوڑتی چلی جاتی ہیں۔
سرائیکی کلام میں جمیل ہاشمی کی شاعری اپنی اصل روح کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ سرائیکی زبان کی مٹھاس شیرینی اور سادگی ان کے کلام کو اور بھی پراثر بنادیتی ہے۔ ان کے سرائیکی اشعار میں محبت، رومان، دکھ اور امید و رجا کی کیفیات شامل ہیں، جبکہ ملتان کی ثقافتی روایات اور صحرائی زندگی کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ ان کا سرائیکی کلام نہ صرف مقامی رنگ رکھتا ہے بلکہ ایک عالمگیر لسانی تنوع کے دل ربا رنگوں سے آشنائی بھی فراہم کرتا ہے۔ جمیل ہاشمی کی شاعری میں کلاسیکی اور جدید شاعری کا امتزاج ان کے فن کو منفرد بناتا ہے۔ وہ روایتی شعریات کو جدید لہجے میں پیش کرتے ہیں. متعدد مقامات پر وہ سماجی روایات کو اہمیت و اولیت دیتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں زبان کا تجربہ، معنوی ابہام اور تشکیک کے عناصر کی جھلک بھی ملتی ہے، جو جدید شاعری کی پہچان ہے۔ وہ مابعد جدیدیت کے دور کے تقاضوں کے مطابق شاعری کو محض جذبات کا اظہار کا وسیلہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ ایک ایسا واسطہ قرار دیتے ہیں جس کے ذریعے سماجی، ثقافتی اور وجودی مسائل کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کلام اپنے ادبی حسن، لسانی چابکدستی اور شاعرانہ تخیل کی وجہ سے اردو اور سرائیکی ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ”صحرا میں ٹھکانہ بنتا تھا‘‘ نہ صرف ان کے فن سخن وری کا عکاس ہے بلکہ اردو شاعری کے جدید رجحانات کو بھی پیش کرتا ہے، جو اسے ایک لازوال ادبی تخلیق بنا دیتے ہیں.