محترمہ تسنیم صنمؔ کا نام اردو کی نسائی شاعری کے ادبی منظر نامے پر جب بھی ابھرتا ہے، تو ایک نئی موسیقیت، غنائیت، تازہ ولولہ، جدید حسیات اور لفظوں کی وہ شستگی و شائستگی محسوس ہوتی ہے جو روح کو چھو لیتی ہے. ان کا تیسرا شعری مجموعہ ’’ہجر کی طاق راتیں‘‘ نہ صرف ان کے فن سخنوری کی ارتقائی منازل کا آئینہ دار ہے، بلکہ اردو غزل و نظم کے دامن کو وسعت، کشادگی اور دل آویزی سے آشنا کرنے والا ایک شاہکار بھی۔ یہ مجموعہ ان کے سابقہ ادبی حوالوں ”کچھ خواب سر مژگاں‘‘ اور ”سرِ شامِ غزل‘‘ کا ایک فکری تسلسل معلوم ہوتا ہے، مگر اس میں ان کے فن کی پختگی، موضوعات کی ندرت اور زبان و بیان کی تازگی بلوچستان کی شاعری میں ایک نئے عہد کا اعلان کرتی محسوس ہوتی ہے۔
شاعرہ مترنم بحروں میں اظہارِ ذات کے قرینے سے آگاہ ہیں. ان کی غزل نگاری کی بات کی جائے تو یہ امر واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک غزل کی شاعرہ ہیں. ان کی غزل گوئی کی سب سے نمایاں خصوصیت الفاظ کا بہترین چناؤ، استعارات و تشبیہات کی تازگی اور زبان و بیان کی روانی ہے۔ وہ ہجر و فراق کے کلاسیکی موضوعات کو نئے زاویوں سے دیکھتی ہیں، جہاں درد محض ایک احساس نہیں، بلکہ خودشناسی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ان کے ہاں سادگی کے پردے میں گہرے جذبات پنہاں ہوتے ہیں، جنہیں پڑھتے ہوئے قاری اپنے وجود کے کسی گوشے میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کی ایک غزل کا شعر دیکھیے:
کوئی تو آکر رلا دے کیفیت سکتے کی ہے
دل ہے پتھر کی مثال اور خشک ہے آنکھوں کی جھیل
یہ شعر نہ صرف سکوت کے تیرگی کو گویائی سے آشنا کر رہا ہے، بلکہ اس میں ایک ایسی کیفیت بھی سما گئی ہے جو اظہار سے قاصر محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ اپنی ذات کے اظہار میں بھی یکتائی اور خودکفالت کا عنصر پیش کرتی ہیں ایک غزل میں کہتی ہیں کہ:
اب تو مجھ کو ہو ہی جانا چاہیے اہلِ نصاب
ایک مدت سے ہوں دیکھو میں دکھوں میں خود کفیل
یہاں ”خود کفیل‘‘ ہونے کا اعلان محض فخر و مباحات کا زاویہ ہی نہیں، بلکہ ایک مجبور وبے کس روح کی آہ و فغاں بھی ہے جو سماجی توقعات سے ماورا ہو چکی ہے۔ ان کے ہاں محبت کے تعلق کو لے کر بھی ایک کرب اور کشمکش نظر آتی ہے، جہاں فاصلوں کا ذکر ہو یا بے سبب سزاؤں کا، ہر چیز ایک المیے کی صورت اختیار کرتی معلوم ہوتی ہے:
فاصلوں کو مٹانا سہل تھا صنم
بے سبب حشر تو کیوں اٹھاتی رہی
اور پھر یہ سوال کہ زمانہ کیوں بے سبب سزائیں دیتا ہے، گویا داخلی بے رحمی کو آفاقی سطح پر محسوس کیا گیا ہو:
دے رہا ہے کیوں زمانہ بے سبب تجھ کو سزا
اے صنم تیری کوئی تقصیر ہونی چاہیے
اگرچہ غزل تسنیم صنمؔ کا اصل میدان ہے، لیکن ان کی نظمیں بھی اپنی گہرائی اور گیرائی میں کم نہیں۔اپنی نظم ”ماں‘‘ میں وہ ممتا کے رشتے کو ایک آفاقی تقدیس عطا کرتی نظر آتی ہیں:
اپنے کمرے کے ہر ایک گوشے میں
ڈھونڈتی ہوگی بہت
اور نہ پھر پا کے مجھے
دور خیالوں میں کہیں
جب کبھی کوئی بھی تصویر ابھرتی ہوگی
تو مجھے یاد تو کرتی ہوگی
یہاں ماں کی محبت اور بیٹی کی یاد میں گھل جانے والی کیفیت کو اس قدر سادگی سے پیش کیا گیا ہے کہ دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی نظم ”دیا‘‘ میں اندھیرے اور روشنی کی علامتی کشمکش کو پر اثر انداز میں پیش کرتی نظر آتی ہیں:
جب ہوائیں قہر ڈھاتی تھیں
دیے سب کے بجھاتی تھیں
اندھیرا ہر گھڑی ہر موڑ پر
سب کو ڈراتا تھا
یہاں دیا محض ایک روشنی کا منبع ہی نہیں، بلکہ امید کی وہ کرن ہے جو سماجی ظلمتوں کے سامنے ڈٹ جاتی ہے۔ شاعرہ نے اپنی نظم ”پانچواں موسم‘‘ میں وفا اور قربانی کی عجب کیفیات کو بیان کیا ہے:
وفا شناس جگر سوختہ سے کہہ دینا
ہر ایک منڈیر پہ روشن چراغ کہتے ہیں
ضیا کی اور وفا کی عجیب قیمت ہے
کہ سر کٹاؤ گریباں چاک چاک کرو
یہاں وفا کو ایک ایسی عظیم قربانی سے تعبیر کیا گیا ہے جو سر کٹانے کر قربانی کے فلسفے تک جا پہنچتی ہے۔ تسنیم صنمؔ کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ روزمرہ کے الفاظ کو اس طرح تراشتی ہیں کہ وہ ایک نئے معنی کا سمندر بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاں غم کی کیفیات و علامات کو بیان کرنے کا انداز سادہ مگر پراثر ہے، جیسے:
کیسے کہہ دوں میرا ہاتھ اگر چھوڑا تو
تیرے ساتھ جو دیکھے خواب بکھر سکتے ہیں
یا پھر یہ شعر، جہاں محبوب کی ستم گری کو ایک آفاقی سوال کی صورت نظم کیا گیا ہے:
ستم گری سے بھلا کیسے روکتے تجھ کو
ترے خیال میں اگلا جہاں تھا ہی نہیں
اور پھر ایک درد بھری دہائی ایک ستم زدہ کی دعا جو ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے:
میرے مالک اب تو میرے درد کا درمان کر
کب تلک بیٹھی رہوں زخموں کی چادر تان کر
ہجر کی طاق راتیں کوئٹہ کے ادبی افق پر ابھرنے والا ایک روشن ستارہ ہے جو صرف شاعری کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایامِ زیست کے جذبات کا ایک ایسا مرقع ہے جو قاری کو اپنے ساتھ ایک انوکھے سفر کی منازل سے آشنائی فراہم ہے۔ تسنیم صنمؔ نے اس میں روایت اور جدیدیت، غم اور امید، ہجر و فراق اور وصال کے کئی رنگ سمو دیے ہیں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کی شاعری کے مداحوں کے لیے ایک نادر تحفہ ہے، بلکہ اردو ادب کے ہر طالب کے لیے ایک بیش قیمت مجموعہ بھی۔ان کا یہ مجموعہ لافانی لگتا ہے کیوں کہ فن جب اس قدر پختگی کا حامل ہو تو وہ ہمیشہ زندہ ہی رہتا ہے.











