فرانز کافکا کی تمثیل (27) ”دیہی سڑک پر بچے‘‘ – مقبول ملک

”دیہی سڑک پر بچے‘‘ – ‏Kinder auf der Landstraße

میں باغ کے جنگلے کے قریب سے گزرتی گھوڑا گاڑیوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ کبھی کبھی یہ گاڑیاں مجھے جھاڑیوں کے درمیان آہستہ آہستہ ہلتی ہوئی خالی جگہوں میں سے بھی نظر آتی تھیں۔ ان گھوڑا گاڑیوں کے پہیوں کے مرکزی حصوں کو ان کے بیرونی دائروں سے جوڑنے والے لکڑی کے ڈنڈے گرمی میں کیسے چٹخنے لگتے تھے، دیہی مزدور کھیتوں سے آتے ہوئے ہنستے تھے کہ یہ کتنی شرم کی بات ہے۔
میں اپنے آبائی گھر کے باغ میں درختوں کے درمیان لٹکتے چھوٹے سے جھولے پر بیٹھا آرام کر رہا ہوتا تھا۔ باغ کے کنارے پر لگی جالی دار باڑ کے سامنے آمد و رفت کا سلسلہ تو کبھی بند ہی نہیں ہوتا تھا۔ مجھے دوڑتے ہوئے بچوں کے پاؤں یکدم نظر آتے اور پھر فوراً گزر بھی جاتے۔ زرعی اجناس کی فصلوں کی گانٹھوں پر بیٹھے ہوئے مردوں اور عورتوں کو لے کر جانے والی گھوڑا گاڑیاں جب وہاں سے گزرتیں، تو ان کی وجہ سے پھولوں کی پوری کی پوری کیاریوں پر گہرے سائے پڑنے لگتے۔
شام کے وقت مجھے اپنی چھڑی پکڑے آہستہ آہستہ سیر کو جاتا ایک بزرگ بھی نظر آتا، اور چند ایسی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بھی جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مخالف سمت سے آتی ہوئی جب قریب پہنچتیں، تو اسے سلام کرتے ہوئے راستہ دینے کے لیے ہٹ کر قریبی گھاس والے حصے پر ہو لیتیں۔
پھر پرندے اس طرح ہوا میں اڑنے لگتے جیسے یکدم بارش شروع ہو گئی ہو۔ میں اپنی نظروں سے ان کا پیچھا کرتا، دیکھتا رہتا کہ وہ ایک ہی سانس میں کتنی بلندی تک جاتے ہیں اور میرے لیے یہ ناقابل یقین بات تھی کہ وہ کتنی اونچائی تک چلے جاتے تھے۔
اسی لمحے مجھے احساس ہوتا کہ جیسے میں تو جھولے سے گرنے ہی والا ہوں۔ تب میں جھولے کی رسیوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتا اور اپنی کمزوری کے احساس کے ساتھ ہلکا ہلکا جھولا جھولنے لگتا۔ کچھ ہی دیر بعد ہوا جب تھوڑی سرد ہو جاتی تو میں اور بھی تیزی سے جھولا جھولنے لگتا۔ فضا میں بلند ہوتے پرندوں پر بھی آسمان پر لرزتے ستارے ظاہر ہونے لگتے۔
پھر موم بتی کی روشنی میں مجھے رات کا کھانا پیش کیا جاتا اور اکثر میرے دونوں بازو بھی میز پر رکھے لکڑی کے اس تحتے پر ہی ہوتے جس پر میرا کھانا رکھا ہوتا۔ میں اپنے ہاتھوں میں ڈبل روٹی کے مکھن لگے ٹکڑوں سے اپنے دانتوں سے نوالے لیتا لیتا تھکاوٹ بھی محسوس کرنے لگتا۔
کھڑکیوں کے کافی پھٹے ہوئے پردے ہوا میں اڑنا شروع کرتے تو کبھی کبھی باہر قریب سے گزرنے والا کوئی راہگیر، جو مجھے بہتر طور پر دیکھنا اور مجھ سے بات کرنا چاہتا، انہیں اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر اس لیے کھڑا ہو جاتا کہ انہیں ہوا میں پھڑپھڑانے سے روک سکے۔
موم بتی اکثر جلد ہی پوری جل کر بجھ جاتی اور اس کے گہرے دھوئیں کے ارد گرد مچھر کافی دیر تک جمع رہتے۔ تب اگر مجھ سے کوئی کھڑکی کی دوسری طرف سے کوئی سوال پوچھتا تو میں اسے ایسے دیکھتا، جیسے میں پہاڑوں کی طرف یا خالی ہوا میں دیکھ رہا ہوتا تھا۔ سوال پوچھنے والے کو اس بات کی کوئی زیادہ پرواہ نہ ہوتی کہ اسے کوئی جواب ملا ہے یا نہیں۔
تب اگر کوئی کھڑکی کے چوکھٹے سے بھی اوپر تک اچھل کر مجھے یہ بتاتا کہ دیگر بچے گھر کے سامنے جمع ہو چکے ہیں، تو میں بھی ایک آہ بھرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا۔ “نہیں، تم یہ آہیں کیوں بھر رہے ہو؟ ہوا کیا ہے آخر؟ کیا کوئی ایسا بڑا اور خاص حادثہ ہو گیا ہے، جس کی کبھی تلافی نہیں ہو سکتی؟ کیا ہم کبھی اس کے اثرات سے نہیں نکل سکیں گے؟ کیا سب کچھ واقعی ختم ہو گیا ہے؟”
ختم تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ پھر ہم گھر کے سامنے چلنا شروع کر دیتے۔ “شکر ہے، تم سب آ گئے ہو!” — “تم تو ہمیشہ ہی بڑی دیر سے آتے ہو!” — “کیوں، میں ہی کیوں؟” — “ہاں، تم ہی، اگر تم ساتھ نہیں چلنا چاہتے، تو گھر پر ہی رہو۔” — “کوئی معافی نہیں؟” — “کیا؟ کوئی معافی نہیں؟ یہ تم کیا کچھ کہتے جا رہے ہو؟”
ہم گہری ہوتی شام کے وقت سرپٹ دوڑتے گئے۔ تب نہ تو کوئی دن کا وقت ہوتا تھا اور نہ رات کا۔ جلد ہی ہماری بنیانوں کے بٹن دانتوں کی طرح ایک دوسرے سے بجنے لگے تھے۔ ہمارے درمیان باہمی فاصلہ مسلسل یکساں تھا، وہ نہ کم ہوتا تھا اور نہ زیادہ۔ ہم میں سے ہر ایک یوں سانس لے رہا تھا، جیسے منہ میں آگ بھری ہو، استوائی علاقوں کے خطرناک جانوروں کی طرح۔
پرانی جنگوں کی سینوں پر چمڑے کی ڈھالیں باندھے فوجوں کے پیدل سپاہیوں کی طرح ہم زمین پر پاؤں مارتے اور پھر انہیں ہوا میں بلند کرتے جا رہے تھے۔ اسی طرح ہم ایک دوسرے کو جوش دلاتے چھوٹی سی تنگ گلی سے اتر کر اپنی ٹانگوں میں بھری توانائی کے ساتھ اب دیہی سڑک پر چلتے جا رہے تھے۔
اس دوران چند ایک کے پاؤں سڑک میں بنے گڑھوں میں پڑتے تو وہ سڑک کے ساتھ ساتھ بنی ڈھلوان سے لڑھکتے ہوئے بس ابھی غائب ہوتے ہی تھے کہ پھر سے اجنبیوں کی طرح خود کو دوبارہ سڑک کی چوڑی ہموار سطح پر پاتے اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگتے — “نیچے اتر کر یہاں آؤ!” — “پہلے تم اوپر چڑھ کر یہاں تک آؤ!” — “تاکہ تم پھر ہمیں نیچے کی طرف دھکا دے دو۔ نہیں، ہم اتنے بےوقوف تو نہیں ہیں” — “تم لوگ بہت ہی بزدل ہو، یہی کہنا چاہتے ہو بس! چھوڑو، آ جاؤ بس۔ آ جاؤ۔” — “واقعی؟ اچھا تم، تمہی لوگ ہمیں پھر نیچے کی طرف دھکا دو گے۔ کیسے دکھائی دو گے تم ایسا کرتے ہوئے، بہت خوب۔”
پھر ہم نے ایک دوسرے پر حملہ شروع کر دیا۔ کبھی ہمیں سینے پر ہاتھ رکھ کر دھکے دیے جاتے اور کبھی ہم سڑک میں بنے بڑے بڑے گڑھوں میں گھاس پر لیٹ جاتے، کبھی گرتے پڑتے اور کبھی ویسے ہی جی چاہنے پر۔ بظاہر ہر شے کا درجہ حرارت ایک سا ہوتا تھا۔ گھاس پر لیٹے لیٹے ہمیں نہ گرمی لگتی اور نہ سردی، بس تھکاوٹ محسوس ہونے لگتی تھی۔
کسی گڑھے میں گھاس پر لیٹے لیٹے اگر کوئی دائیں طرف کو کروٹ بدلتے ہوئے اپنا دایاں ہاتھ کان کے نیچے رکھ لیتا، تو یہ خواہش پیدا ہوتی کہ وہیں سو جائے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خواہش بھی پیدا ہوتی کہ اس گڑھے سے کامیابی کے احساس کے ساتھ باہر نکلا جائے اور پھر کسی اور بھی زیادہ گہرے گڑھے میں چھلانگ لگا دی جائے۔
اس خواہش پر عمل درآمد کا بھی ایک طریقہ تھا۔ ایک بازو موڑ کر سینے کے سامنے اور دونوں ٹانگیں تھوڑی سی ٹیڑھی کر کے خود کو سامنے سے آنے والی ہوا پر پھینک دینا، اور پھر یہ یقین کہ چھلانگ لگانے والا جس گڑھے میں گرے گا، وہ پہلے والے گڑھے سے بھی گہرا ہو گا۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہوتا، جسے کوئی بھی روکنا نہ چاہتا۔
سب سے آخر والے گڑھے میں ٹانگوں کو سیدھا کیے بغیر، خاص طور پر جب گھٹنے بھی مڑے ہوئے ہوں، اچھی طرح بھلا کیسے سویا جا سکتا تھا، یہ کسی نے سوچا ہی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ کہ چھلانگ لگانے والا گڑھے میں اپنی کمر کے بل بس ایسے لیٹا رہتا تھا، جیسے کوئی مریض، اور وہ بھی ایسا جو تھوڑا سا رو دینے کو بالکل تیار ہو۔ اس دوران جب کوئی لڑکا سڑک کے ساتھ ساتھ بنی ڈھلوان کے کنارے سے سڑک پر چھلانگ لگاتا، تو اس کی کہنیاں اس کے پہلو سے لگی ہوتیں اور گڑھے میں لیٹا ہوا لڑکا اس کے جوتوں کے گہرے رنگ کے تلوے تک دیکھ سکتا تھا۔ ایسے کسی لڑکے کو یکدم گڑھے سے ہی اپنے اوپر سے گزرتے ہوئے دیکھ کر ہم تیزی سے پلکیں جھپکنے لگتے۔
تب ہمیں چاند تو کافی اونچا ہی دکھائی دیتا تھا، لیکن جب چاند کی چاندنی میں ڈاک لے کر جانے والی کوئی گھوڑا گاڑی وہاں سے گزرتی، تو ہوا میں ایسی ہلکی سی اضافی حرکت پیدا ہو جاتی جسے ہم گڑھے میں بھی محسوس کر لیتے۔ پھر قریبی جنگل سے ہوا کی وجہ سے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ کی آواز بھی ہم تک پہنچنے لگتی۔ ایسے میں کوئی بھی اس بات کو زیادہ پسند نہ کرتا کہ وہ اکیلا ہو۔
“کہاں ہو تم؟” — “یہاں آؤ!” — “سارے یہاں آؤ، مل کر۔” — “تم چھپ کس لیے رہے ہو؟ چھوڑو یہ بےوقوفی!” — “کیا تم نہیں جانتے کہ ڈاک لے جانے والی گھوڑا گاڑی تو یہاں سے ہوتی ہوئی گزر بھی چکی؟” — “ظاہر ہے، جب تم سو رہے تھے تو وہ گزر گئی تھی۔” — “میں سو رہا تھا؟ نہیں، ایسا تو ہوا ہی نہیں!” — “چپ کرو، تم تو اب بھی سوئے سوئے سے دکھائی دے رہے ہو۔” — “لیکن تم میری بات تو سنو۔” — “چھوڑو، چھوڑو، چلو سب!”
پھر ہم ایک جتھے کی طرح ایک دوسرے کے بہت قریب ہو کر چلنے لگے۔ کچھ نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ لیکن سروں کو کافی سیدھا رکھنا اس لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم سب ڈھلوان سے نیچے اتر رہے تھے۔ پھر کسی نے ریڈ انڈینز کی جنگ کے موقع پر ماری جانے والی چیخ ماری تو ہم سب کی ٹانگیں ہمیں لے کر ایسے دوڑیں کہ پہلے اتنی تیز رفتاری کبھی دیکھی ہی نہیں گئی تھی۔
دوڑتے دوڑتے ہم ایسے چھلانگیں لگاتے، جیسے ہوا ہمیں کولہوں سے اوپر کی طرف اٹھاتے ہوئے ہماری مدد کر رہی ہوتی۔ ہم اتنی تیز رفتاری سے بھاگ رہے ہوتے تھے کہ ہمیں کوئی شے روک ہی نہیں سکتی تھی، حتیٰ کہ دوسروں سے آگے نکلتے ہوئے ہم اپنے بازو موڑ کر اپنے سینے پر باندھ لیتے اور سکون سے اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے کے قابل ہوتے تھے۔
پھر وہاں سے گزرنے والی ندی کے پل پر ہم رک جاتے۔ جو پل پار کر کے آگے جا چکے ہوتے، وہ بھی لوٹ آتے تھے۔ نیچے ندی میں پانی پتھروں اور جھاڑیوں کی جڑوں سے ایسے ٹکرا رہا ہوتا جیسے ابھی بہت شام ہوئی ہی نہیں تھی۔ اس بات کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ ہم میں سے کوئی اچھل کر پل کی حفاظتی دیوار پر نہ چڑھ جاتا۔
دور بہت سے درختوں کے جھنڈ کے پیچھے سے ایک ریل گاڑی نکل کر اپنی منزل کی طرف جاتی نظر آتی۔ اس کی تمام بوگیاں روشن ہوتیں اور کھڑکیوں کے شیشے یقینی طور پر نیچے کیے ہوئے ہوتے۔ ہم میں سے ایک اگر کوئی مشہور لوگ گیت گانا شروع کر دیتا تو ہمیں احساس ہوتا کہ گانا تو ہم سبھی گانا چاہتے تھے۔ ہم ریل گاڑی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے گیت گاتے۔ ساتھ ساتھ ہم ایک دوسرے کے بازو پکڑ کر ہوا میں لہراتے بھی جاتے، اس لیے کہ صرف آواز ہی کافی نہیں تھی۔
ہم سب کی آوازوں کے ملنے سے ایک ایسی اونچی، گونجنے والی آواز بن جاتی، جو ہم سب کو بہت بھانے لگتی تھی۔ جب کوئی انسان اپنی آواز دوسروں کی آوازوں کے ساتھ ملا دیتا ہے، تو وہ جیسے مچھلیاں پکڑنے کے لیے استعمال ہونے والے کسی کانٹے میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ ہم بس اس طرح گاتے رہتے کہ جنگل ہماری پشت پر ہوتا اور کہیں دور جانے والے مسافر ہمارے سامع ہوتے۔
ادھر گاؤں کے بالغ افراد ابھی جاگ رہے تھے اور مائیں سونے کے لیے بستر تیار کرنے لگی تھیں۔ اب وقت ہو چکا تھا۔ میں نے اس بچے کا بوسہ لیا جو میرے ساتھ کھڑا تھا، اس سے پرے کھڑے تین دیگر لڑکوں سے ہاتھ ملایا اور واپس گھر کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ مجھے پیچھے سے کسی نے آواز بھی نہیں دی تھی۔
پہلے چوراہے تک پہنچ کر جہاں وہ مجھے اب دیکھ نہیں سکتے تھے، میں مڑا اور کھیتوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دوبارہ جنگل میں چلا گیا۔ میں جنوب کی طرف واقع اس شہر کی طرف سفر میں تھا، جس کے بارے میں ہمارے گاؤں میں کہا جاتا تھا: “وہاں تو لوگ بڑے عجیب ہوتے ہیں! ذرا سوچو، وہ تو سوتے ہی نہیں!”
“لیکن کیوں نہیں؟”
“اس لیے کہ وہ تھکتے ہی نہیں۔”
“لیکن کیوں نہیں؟”
“اس لیے کہ وہ مسخرے ہوتے ہیں۔”
“تو کیا مسخرے کبھی نہیں تھکتے؟”
“مسخرے بھلا تھک کیسے سکتے ہیں!”

مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک

(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)