”تماثیل کے بارے میں‘‘ – Von den Gleichnissen
بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ کسی دانا بزرگ کے الفاظ تو ہمیشہ صرف ایسی تماثیل اور کہانیاں ہی ہوتے ہیں، جو روزمرہ زندگی میں ناقابل استعمال ہوتی ہیں۔ اور زندگی، وہ تو ہمارے پاس بس یہی، ایک ہی ہے۔
جب کوئی دانا بزرگ کہتا ہے، ”اس میں سے گزر جاؤ،‘‘ تو اس کا مطلب کہیں دور، کوئی شاندار بات ہوتی ہے۔ مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس وقت انسان جہاں ہے، وہاں سے پار دوسری طرف کو چلا جائے۔ ایسا کوئی کام تو انسان خود بھی کر ہی سکتا ہے، اگر نتیجہ اس راستے پر مسافت کا اچھا صلہ ہو، جس پر چل کر دوسری طرف جایا جا سکتا ہو۔
اس دانا انسان کی مراد تو ایک ایسی ”دوسری طرف‘‘ سے ہوتی ہے، جس سے ہم واقف ہی نہیں ہوتے۔ اپنے ان الفاظ کی ہمارے لیے وہ صاحب حکمت خود بھی کوئی وضاحت نہیں کر سکتا اور یہ صورت حال بھی ہمارے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتی۔
ایسی تمام تماثیل ہمیں صرف یہ بتاتی ہیں کہ ناقابل فہم ناقابل فہم ہی ہے۔ لیکن یہ بات تو ہم پہلے ہی سے جانتے تھے۔ مگر وہ سب کچھ جس کے لیے ہم دن رات جدوجہد کرتے رہتے ہیں، وہ اور ہی چیزیں ہوتی ہیں۔
اس پر ایک بولا، ”تم اتنی مزاحمت کیوں کرتے ہو؟ اگر تم تماثیل پر عمل کرو گے تو خود بھی تماثیل بن جاؤ گے اور یوں ہر روز کی جدوجہد سے بھی آزاد ہو جاؤ گے۔‘‘ یہ سن کر دوسرے نے کہا، ”میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہ بھی ایک تمثیل ہی ہے۔‘‘
پہلا پھر بولا، ”تم جیت گئے ہو۔‘‘ دوسرے نے کہا، ”لیکن افسوس کہ صرف تمثیل میں۔‘‘ اس پر پہلے نے کہا، ”نہیں، حقیقت میں، تمثیل میں تو تم ہار گئے ہو۔‘‘
مصنف: فرانز کافکا
مترجم: مقبول ملک
(جرمن ادب کے شائق دوستوں کی نذر)