وبا کے دنوں میں کتابوں کی سوغات – رضا علی عابدی

یہاں ہم لوگوں کے گھروں میں سامنے والے دروازے میں لیٹر بکس کا روزن بنا ہوتا ہے۔ ڈاکیہ عام ڈاک اسی میں ڈال کر چلا جاتا ہے لیکن اگر بڑا پیکٹ ہو اور لیٹر بکس میں اس کی سمائی نہ ہو تو ڈاکیہ دروازے پر دستک دیتا ہے۔ تازہ احوال یہ ہے کہ اِدھر ڈاکیے نے ایک نہیں دو مرتبہ دستک دی۔ ڈاک میں دو چمکتی دمکتی کتابیں موصول ہوئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ جو لاک ڈاؤن کے دن ہیں، یہی کتاب پڑھنے کے دن ہیں۔ اب ان کتابوں کا احوال ضرور کہوں گا کہ دونوں اپنے اپنے شعبے کی باکمال کتب ہیں۔ پہلی کتاب کا نام ہے: ”طلسمِ حیات اور انسان کی خدائی‘‘ اور دوسری روشن کتاب ہے: ”سب رنگ کی کہانیاں‘‘، سمندرپار کے شاہکار افسانوں کے ترجمے۔

”طلسمِ حیات‘‘ کے بارے میں کہتے ہوئے جی بہت ہی شاد ہوتا ہے کہ اُردو کتابوں کی دنیا میں نہایت ہی بیش بہا اضافہ ہے۔ جدید سائنسی موضوع پر لکھنے کی زحمت کون کرتا ہے اور وہ بھی جدید سائنسی فکر پر اور اوپر سے یہ کہ بزبانِ اُردو۔ یہ کارنامہ ایڈوانسڈ سائنس کے استاد سید شبیہ الحسن زیدی نے انجام دیا ہے۔ اس موضوع پر ان کی اتنی گہری نگاہ ہے کہ ابھی تھوڑے ہی عرصے قبل ان کی پہلی کتاب ”طلسمِ حیات‘‘ لکھی گئی تھی اور شائع ہوئی تھی جب میں نے لکھا تھا کہ اُردو مطبوعات میں ایک حیرت انگیز اضافہ۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ زیدی صاحب ٹھہرے سائنس کے استاد، ایسے لوگ چین سے نہیں بیٹھا کرتے کہ ان کی فطرت میں پارہ بھرا ہوتا ہے۔ شاید انہیں یہ احساس مسلسل ستائے جارہا تھا کہ پہلی کتاب میں بہت کمی رہ گئی ہے چنانچہ سید شبیہ الحسن زیدی صاحب نے بات کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ دوسری کتاب تصنیف کی جس کے عنوان میں انہوں نے پُر اسرار الفاظ کا اضافہ کیا: ”انسان کی خدائی‘‘ یہ بہت ہی معنی خیز اضافہ ہے جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کائنات کے رموز جاننے کی راہیں نکالنے میں کامیا ب ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہاں کتاب کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں۔ میں چند عنوان بیان کروں گا جن سے کُل کیفیت واضح ہوگی: حقیقت کی تلاش۔ زمان و مکان کی چادر۔ کائناتی پھیلاؤ۔ بلیک ہولز۔ شعور۔ مصنوعی ذہانت اور انفارمیشن ٹیکنا لوجی۔ ہمہ گیر اخلاقیات بشمول مذہبی اور سائنسی اخلاقیات۔ مابعد الطبیعات۔ فیثا غورث اور دوسرے مفکر۔ کائناتی ماضی اور مستقبل میں سفر (ٹائم ٹریول) اور آخر میں عالمِ امکان۔ اور رومی کا یہ وجدانی کلام کہ: ایک کائنات عدم ہے جس کی لہریں ساحلِ وجود سے ٹکراتی ہیں، ان لہروں میں کود جا۔ اور اگر کوئی سوال کرے تو کہہ دے کہ تو ایک صوفی ہے اور صوفی اپنے ماضی سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ تیری قندیل دوسری تمام قندیلوں کو روشن کرتی ہے۔ اس کی روشنی تمام عظیم روشن ہستیوں سے مربوط ہوجائے گی۔ تیری روح ہر شے سے بے نیاز ہوجائے گی۔ تو جہان عدم کے حرم سرا کا بادشاہ بن جائے گا جہاں سب تیری اطاعت کریں گے۔ تیرا وجود بھی تیری طرف نظر نہیں اٹھا سکے گا کیوں کہ تیری عظمت کی تابناکی نظر کو خیرہ کردے گی۔ سچ ہے، مولانا کے فرمودات کو سمجھنے کے لیے اقبال جیسا ذہن درکار ہے۔

اب دوسری کتاب جو لاک ڈاؤن کی گھٹن میں تازہ جھونکے کی طرح چلی آئی۔ پاکستان کے رسالوں اور جریدوں کی دنیا سے جو ذرا سا بھی روشناس ہے وہ شکیل عادل زادہ کے ”سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ سے بخوبی واقف ہوگا۔ سنہ ستّر کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی سب رنگ ہمارے ادب کے افق پر نمودار ہوااور ہم نے وہ منظر دیکھے ہیں جب ”سب رنگ‘‘ کا تازہ شمارہ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا اور اچھے ادب کی متلاشی اگلے شمارے کا انتظار شروع کردیتے تھے۔ یہ جریدہ اتنے اہتمام، اتنے سلیقے اور اتنی لگن کے ساتھ نکلتا تھا کہ اس کے صفحات اعلیٰ ادب میں شامل کیے جانے لگے۔ جلد ہی ”سب رنگ‘‘ کی کہانیوں اور داستانوں کے دھوم مچ گئی اورشکیل عادل زادہ نے بھی افسانے لکھنے اور ترجمے کرنے والوں کی ایک فوج کھڑی کرلی۔ اس کے بعد تو ملک کے اندر اور باہر لکھے جانے والے فکشن نے لوگوں کو جدید اور کلاسیکی کہانی کے رموز سے آشنا کیا اور خوب کیا۔
اب ہوا یہ ہے کہ ”سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ تو کبھی کا محو خواب ہوا لیکن اس کی پرانی جلدیں مداحوں نے سینے سے لگا کر محفوظ کر رکھی ہیں۔ ادھر رسالے اور اس کے مدیر کے قریبی رفیق حسن رضا گوندل نے سب رنگ میں شائع ہونے والی سمندر پار کی شاہ کار کہانیوں کا انتخاب کیا اور جہلم کے سرکردہ اشاعت گھر ”بُک کارنر‘‘ نے یہ انتخاب اُسی سلیقے سے شائع کیا ہے جو شکیل عادل زادہ کا طرہ امتیاز تھا۔ کتاب میں تقریباً تیس کہانیاں شامل ہیں اور انہیں لکھنے والوں میں ٹالسٹائی (Leo Tolstoy)، اوہنری (O. Henry – William Sydney Porter)، سمرسٹ مام (William Somerset Maugham CH)، رولڈ ڈہال (Roald Dahl)، چیخف (Anton Pavlovich Chekhov)، موپساں (Henri René Albert Guy de Maupassant) جیسے نام آتے ہیں۔

ترجموں سے مجھے ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ان کا لب و لہجہ اجنبی سا لگتا ہے۔ ترجمہ پڑھتے ہی محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ عبارت کسی دوسری زبان سے اٹھائی گئی ہے۔ اس کے اسباب ہو سکتے ہیں جو باقاعدگی سے ترجمہ کرنے والے احباب بتا سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ایک مختلف معاشرے اور تہذیب کو مترجم اپنے ماحول اور اپنی فضا میں نہیں ڈھال سکتا۔ حالاں کہ اس پر مجھے انتظار حسین کے ترجمے ”گھاس کے میدانوں میں‘‘ کی مثال پیش کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ خالص روسی کہانی (The Steppe) کا لہجہ کسی مرحلے پر بھی پرایا اور پردیسی نہیں لگا۔ اس بات سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کسی غیر ملکی زبان کا ترجمہ اتنا ہی مشکل ہے جتنی اپنی طبع زاد عبارت لکھنا اور یہ کہ ترجمہ کسی زبان کے چربے کا نام نہیں بلکہ اپنی تخلیق کی ایک شکل ہے۔

شفیق الرحمٰن کا ولیم سرویاں (William Saroyan) کا ”انسانی تماشا‘‘ اس کی درخشاں مثال ہے کہ یہ چھوٹی سی کتاب قدم قدم پر یوں لگتی ہے جیسے شفیق الرحمٰن نے فرصت سے بیٹھ کر لکھی ہے، اپنے قلم سے، خود۔
(جنگ)