”دھوپ میں جلتے خواب‘‘ معروف افسانہ نگار اور نظامت کار محترمہ نغمانہ شیخ کا افسانوی مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر

محترمہ نغمانہ شیخ کا افسانوی مجموعہ ”دھوپ میں جلتے خواب‘‘ اردو افسانے کی دنیا میں خصوصاً نسائی ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے۔ یہ مجموعہ انسانی زندگی کے تلخ حقائق، خوابوں کی ناتمام دنیا اور ہمارے معاشرتی رویوں کے اتار چڑھاؤ کو نہایت فنکارانہ، انداز میں پیش کرتا ہے۔ مصنفہ کی کہانیوں میں داخلی کیفیات اور خارجی مسائل کی ہم آہنگی اس مہارت سے دکھائی گئی ہے کہ قاری کرداروں کے ساتھ جیتا، اداس ہوتا اور سوچتا چلا جاتا ہے۔ ہر کہانی اپنے اندر ایک گہرا نفسیاتی تجزیہ سموئے ہوئے ہے، جو زندگی کے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
کتاب میں شامل افسانے ضرورت، ہم عمر، سپردگی کا ملال، بے تعبیر خواب، مباح اور تیرگی ان کے اس اسلوب تحریر کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں.
نغمانہ شیخ کا فن کہانی کاری غیر معمولی ہے۔ وہ محض قصے سنانے کی حد تک محدود نہیں رہتیں بلکہ قاری کو ایک ایسے تجربے سے آشنا کرواتی ہیں جہاں کہانی کی گہرائی اور تہہ داری اسے سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان کے افسانے زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں اور خاص طور پر خواتین کے مخصوص نفسیاتی، معاشی اور سماجی مسائل کو ایک نئے زاویے سے اجاگر کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے کردار حقیقت کے قریب تر ہیں، ان کی کشمکش، خواہشات، ناکامیاں اور خواب سبھی ایک جانی پہچانی دنیا کا حصہ لگتے ہیں۔ ان کی تحریریں عورت کے جذبات، اس کی آرزوؤں نامکمل تمناؤں اور اس پر عائد کی گئی معاشرتی بندشوں کو اس انداز میں پیش کرتی ہیں کہ قاری ان کے ساتھ ایک گہرا جذباتی تعلق محسوس کرنے لگتا ہے۔
ان کا طرزِ تحریر سادہ مگر گہرائی اور معنویت لیے ہوئے ہے۔ جملے سادہ ہونے کے باوجود معنی کی کئی پرتوں کو سمیٹے ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں علامتی رنگ نمایاں ہو کر کہانی کو ایک استعاراتی جہت عطا کرتا ہے، لیکن یہ علامتیں بوجھل یا مبہم نہیں ہوتیں بلکہ کہانی کی فضا میں اس طرح تحلیل ہو جاتی ہیں کہ قاری کے شعور میں نئی دنیاؤں کے در کھلنے لگتے ہیں۔ وہ لفظوں کے بے جا استعمال سے گریز کرتی ہیں اور ان کا نثر نپا تلا اور متوازن ہوتا ہے۔ ہر جملہ معنی خیز اور سوچنے پر مجبور کر دینے والا ہوتا ہے، جو کہانی کو مزید مؤثر بنا دیتا ہے۔
افسانہ ”یقین کا گمان‘‘ کا جملہ دیکھیے: ”اس سے پہلے کہ دنیا اس پر ہنسے میں خود اپنے اوپر ہنس لیتا ہوں.‘‘ اسی طرح افسانہ ”سپردگی کا ملال‘‘ کا یہ جملہ معنی آفرینی کی اعلی مثال ہے: ”یہ کیسا سفر ہے جس میں جسم تو سفر کر رہا ہے لیکن روح ٹھہر گئی ہے.‘‘
طرزِ اظہار میں نغمانہ شیخ کی سب سے بڑی خوبی ان کے جملوں کی روانی اور سادگی میں چھپا گہرا تاثر ہے۔ وہ کسی بھی جذبے کو بیان کرنے میں مبالغہ نہیں کرتیں بلکہ اسے ایک فطری بہاؤ کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ ان کے بیانیے میں ایک طرح کی عکاسی، منظر کشی اور اثر پذیری پائی جاتی ہے جو افسانوں کو محض کہانیاں نہیں رہنے دیتی بلکہ ایک مکمل تجربے میں ڈھال دیتی ہے۔ ان کے مکالمے جاندار اور حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں، جو کہانی میں مزید جان ڈال دیتے ہیں اور قاری کو براہ راست کرداروں سے جوڑ دیتے ہیں۔
افسانوی مجموعہ ”دھوپ میں جلتے خواب‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ محض تخلیقی بیانیہ نہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے سماجی اور نفسیاتی معاملات کی گہری عکاسی ہے۔ ان افسانوں میں دکھایا گیا داخلی کرب اور خارجی مسائل ایک ایسا فکری و جذباتی امتزاج پیش کرتے ہیں جو قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور رکھتا ہے۔ نغمانہ شیخ کا یہ مجموعہ اردو افسانے کی روایت میں ایک قیمتی اضافہ ہے، جو قاری کو زندگی کے کئی نئے زاویے دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی تحریریں جدید اردو افسانے کی روح سے جڑی ہوئی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اپنی تازگی اور معنویت برقرار رکھیں گی، انشاءاللہ.