تعارف :
منشی پریم چند کا شمار اُردو کے نامور ناول نگاروں اور افسانہ نویسوں میں ہوتا ہے۔ آپ کا اصلی نام دھننپت رائے شریواستو ہے جب کہ آپ نے “پریم‘‘ کا تخلص اختیار کیا. لیکن آپ ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہوئے۔ پریم چند 1880ء میں منشی عجائب لال کے ہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد پیشہ کے اعتبار سے کلرک تھے۔ قلیل آمدنی کے باوجود آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ پریم چند نے تقریباً سات سے آٹھ سال تک فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ابھی تعلیم کا سفر جاری ہی تھا کہ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی اور شادی کے تقریباً ایک سال بعد ہی آپ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت پریم چند آٹھویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھے۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ فکرِ معاش نے زیادہ پریشان کیا۔ ایسی صورت میں ذریعہ آمدنی کے لیے طلبہ کو پڑھا کر چند روپے کمانا شروع کیے۔
اس مشکل وقت میں میٹرک کا امتحان پاس کرنا واقعی ایک کارنامہ ہے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ آپ نے ملازمت کے شروع کے دنوں میں ہی بی۔ اے کا امتحان پاس کر لیا۔ منشی پریم چند کے حالاتِ زندگی سے متعلق ادب کی دنیا کے تمام قاری باخوبی آگاہ ہیں لہٰذا یہاں ہم زیادہ تفصیلات میں جانے کی بجائے ان کے ادبی سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔
ادبی زندگی:
منشی پریم چند کی ادبی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ (اسرارِ معابد درست ہے) رسالہ آوازِ خلق میں 18 اکتوبر، 1903ء کو شائع ہوا۔ اس ناول کے تقریباً پانچ سال بعد 1907ء میں آپ کا دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام سے منظرِعام پر آیا۔ لیکن یہ ناول اب موجود نہیں. اگر موجود ہے بھی تو ہماری رسائی میں نہیں۔ خیر ادب کی دنیا میں یہ ایک الگ مسئلہ درپیش ہے۔ بعد ازا منشی پریم چند کا پانچ افسانوں کا مجموعہ 1908ء میں ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے میں منظر عام پر آیا۔ اس کتاب کے آنے کے بعد پریم چند کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چوں کہ اس مجموعے میں آپ نے آزادی حق، حریت، غلامی اور بغاوت کے موضوعات کو نہ صرف چھیڑا بلکہ آپ نےمظلوموں کی آواز بن کران کی سرعام وقالت بھی کی، جس کی وجہ سے حکومتِ برطانیہ نے منشی پریم چند کی اس کتاب ’’سوزِ وطن‘‘ پر پابندی عائد کی۔ جس کے نتیجہ میں گورکھ پور کی حکومت نے اس کی تمام نقول حاصل کر کے نہ صرف جلا دیں بلکہ آئندہ کے لیے سخت پابندیاں بھی عائد کر دی۔ پریم چند نے ان افسانوں میں اپنا نام ’’نواب رائے‘‘ کے قلمی نام سے لکھا۔ اس کے کافی عرصہ بعد پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا۔
پریم چند اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کے بڑے افسانہ نگاروں میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے ناول نگار بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں پریم چند کو ’’اُپنیاس سمراٹ‘‘ یعنی ناول نگاری کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ پریم چند نے اپنی پینتیس سالہ ادبی زندگی میں جو کچھ لکھا اس پر ایک بلند قومی نصب العین کی مہر لگی ہوئی ہے۔ آپ کی تحریروں میں وطن سے محبت کا شدید جذبہ ٹھاٹھے مارتا نظر آتا ہے، جس کی اُردو افسانہ نگاری میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ چوں کہ پریم چند تحریکِ آزادی کے متوالے اور وطن پرست ہیں، ان کے جنون کی انتہا اس قدر تھی کہ انھوں نے مہاتما گاندھی کی تحریک ’’عدم تعاون‘‘ پر لبّیک کہتے ہوئے اپنی بیس سالہ نوکری، جوطویل افلاس اور شدید مشقّت کے بعد حاصل کی تھی، کسی ہچکچاہٹ کے بغیر، اس نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ کی تحریروں میں بیسویں صدی کے ابتدائی تیس تا پینتیس سالوں کی معاشرتی اور سیاسی زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں۔ پریم چند کے کردار عام زندگی سے اخذ شدہ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے قلم کو صفحہ قرطاس پر اُتارنے سے پہلے حقیقی کرداروں کو قریب سے جانچتے اور پڑکھتے ہوئے گہرا مشاہدہ کر رکھا ہے۔ پریم چند اپنے کرداروں کے باطن میں جھانکتے ہوئے ان میں موجود پوشیدہ خیر و شر کا مشاہدہ کر کے ان کرداروں کے اندر موجود ذہنی کشمکش کو محسوس کرتے ہیں۔ ان تمام عوامل کو مدِنظر رکھنے کے بعد پھر کہیں جاکر ان کرداروں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ کردار قاری کو حقیقی جانے پہچانے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر نسوانی کرداروں کو دیکھا جائے تو پریم چند کی تحریروں میں موجود عورت کی عظمت، اس کی نسائیت کی جہات اور اس کے حقوق کی پاسداری کا احساس باضابطہ طور پر ملتا ہے۔ مصنف نے عورت کا معاشرے میں موجود مقام اور اس کو درپیش معاشی ومعاشرتی مسائل کو حقیقی جامہ پہناتے ہوئے اپنی تحریر کا احاطہ کیا ہے۔ پریم چند مثالیت نوازاورحقیقت پرست انسان تھے۔ ان کی تحریروں میں مثالیت پسندی اور حقیقت شناسی کے مابین ایک توازن کی تلاش کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔
منشی پریم چند کا افسانہ نگاری میں مقام:
افسانہ نگاری میں منشی پریم چند ایک منفرد مقام کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ادب کی دنیا میں یہ منشی پریم چند ایک ایسا نام ہے جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ادب کی دنیا کے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح آپ نے پیارو محبت، عشق وملال، ہجر و فراق جیسے سطحی موضوعات کو اپنے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اس کے پرعکس حقیقت پرستی کی طرف اپنے ذہن و قلم کا رُخ جمائے رکھا۔ آپ کے قلم سے ہندوستان کی مٹی اور اس مٹی میں موجود محنت کشوں کی خوشبو آتی ہے۔ ادواروں کے اعتبار سے منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
منشی پریم چند کی افسانہ نگاری:
پریم چند کے اکثرو بیشتر افسانوں کے کرداروں کا پلاٹ دیہات کی مٹی اور اس مٹی میں پلنے والے دیہاتیوں کی زندگیوں سے جڑے نظر آتے ہیں۔ پریم چند نے دیہات میں بسنے والوں کی دیہاتی زندگی کے حقیقی مناظر پیش کیے ہیں۔ ان کے کردارنہ صرف جیتے جاگتے کردار ہیں بلکہ ان کرداروں کے اپنے جذباتی اور نفسیاتی مسائل بھی واضح نظر آتے ہیں۔ پریم چند ان دیہاتیوں کی معصومیت، نیکوکاریوں، جہالت اور تو ہم پرستی سے خوب واقف ہیں۔ پریم چند نے ہندوستانی زندگی سے متعلق سیکڑوں افسانے لکھے ہیں۔ ان کی نظر خاص طور پر طبقاتی سماج کے پیدا کر دہ مسائل پر رہی۔ منشی پریم چند کے افسانے مثلاً ”پوس کی رات‘‘، ”بڑے گھر کی بیٹی‘‘، ”سوا سیر گیہوں‘‘، ”حجِ اکبر‘‘، ”کفن‘‘ و دیگر بے شمار مشہور ہوئے جو ان کی فنکارانہ بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ خاص طور پرافسانہ ”کفن‘‘ کو اُردو افسانے کی تاریخ میں شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔
پریم چند کے یہاں حقیقت نگاری کا تصور ملتا ہے۔ آپ نے اپنے عہد، ملک اور لوگوں کے معاشرتی وسماجی مسائل اور واقعات کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد ان مسائل کو افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پریم چند نے اپنے زاویہ نظر، احساسِ فکر، جمالیاتی کیفیت اور جذباتی ردِ عمل سے نہ صرف حسبِ ضرورت کام لیا ہے بلکہ اپنی فنِ مہارت سے افسانہ نگاری کے تمام تقاضوں کی بھرپورتکمیل کی ہے۔
منشی پریم چند کے افسانوی مجموعے:
پریم چند کے افسانوں کے گیارہ مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان کی افسانہ نگاری کا آغاز 1907ء میں ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ سے ہوا۔ 1936ء تک آپ نے اردو و ہندی میں سینکڑوں کہانیاں لکھیں. اردو میں ان کی تعداد تقریباً دوسو ہے۔ جب کہ بہت سی ہندی کہانیاں اُردو زبان میں منتقل نہیں ہوسکیں۔ افسانوں میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ ہے جو ان کے پہلے قلمی نام ”نواب رائے‘‘ سے چھپا تھا۔ اس افسانے کی اشاعت پر پریم چند سے سرکاری باز پُرس ہوئی اور اس مجموعے کے سبھی نسخوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد منشی پریم چند نے قلمی نام ”نواب رائے‘‘ کی جگہ ”پریم چند‘‘ استعمال کرنا شروع کیا۔ ان کے دوسرے مجموعوں میں پریم پچیسی، پریم بتیسی، پریم چالیسی، فردوس خیال، خاک پروانہ، خواب وخیال، آخری تحفہ، زاد راہ، دودھ کی قیمت، اور واردات وغیرہ شامل ہیں۔
منشی پریم چند کی پہلی کہانی ’’دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر چار کہانیاں، مجموعہ ”سوزِ وطن‘‘ میں شامل ہیں جو کہ جون 1908ء میں شائع ہوا تھا۔ اس مجموعہ کی ساری کہانیاں حبُ الوطنی اور آزادی کے جذبات سے مملو ہیں۔ لہٰذا اس جذبہ سے خوف زدہ انگریز حکومت نے اسے ضبط کرکے نذرِ آتش کردیا اور اسی سلسلہ میں پریم چند کو انگریز سرکارکے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑا۔ پریم چند کے ابتدائی افسانوی مجموعے ’’سوز وطن‘‘ میں سیاسی مقصد کی کارفرمائی نظر آتی ہے جو قوم پرستی اور قومی یکجہتی کے احساس سے لبریزہے۔ “سوزِ وطن” حب وطن کا پہلا وبال اوربھرپور آوازوجذبات کے طور پر منظرِ عام پر آیا ہے۔ اس مجموعے کا پس منظرسیاسی ہے، جس میں تقسیم بنگال کا دل سوز واقعہ موجود ہے ۔ ”سوزِ وطن‘‘ میں پانچ افسانے ”دنیا کا سب سے انمول رتن‘‘، ”شیخ مخمور‘‘، ”یہی میرا وطن ہے‘‘، ”صلہ ماتم‘‘، ”عشق دنیا‘‘ اور ”حبِ وطن‘‘ شامل ہیں۔ ”سوزِ وطن‘‘ کا موضوع غلامی کے خلاف مزاحمت کے جذبے پر مشتمل ہے اور اس کا مرکزی خیال وطن پرستی ہے۔ اسی لیے اس میں حب الوطنی اورقومی یکجہتی کا احساس زیادہ شدت کے ساتھ موجزن ہے۔