لائبریری (At the Public Library)

لائینل (Lionel) اور یولی سیز (Ulysses)… دونوں لائبریری کی طرف روانہ ہوئے. جب وہ اس سادہ مگر صاف ستھری عمارت میں داخل ہوئے تو چاروں طرف دہشت انگیز سکوت طاری تھا. فرش، الماریاں ہر چیز دیکھا پر خاموشی چھائی ہوئی تھی. کچھ بوڑھے اخبار پڑھ رہے تھے. چند مقامی فلاسفر ضخیم کتابیں لیے بیٹھے تھے. تین چار طلباء ریسرچ میں مشغول تھے. مگر علم کے یہ سب متلاشی خاموش تھے. لائینل ماحول سے اتنا متاثر ہوا کہ منہ سے بات نہ نکلتی تھی. پنجوں کے بل چل رہا تھا. اس پر مطالعہ کرنے والوں سے زیادہ کتابوں کا رعب پڑا. یولی سیز بھی بڑے احتیاط سے قدم اٹھاتا کہ آہٹ نہ ہو. لائینل کتابوں کو دیکھ رہا تھا اور یولی سیز پڑھنے والوں کے چہرے.
لائینل ان پڑھ تھا پھر بھی کتابوں کا شوق اسے کھینچ لایا. وہ سرگوشی میں اپنے دوست کو بتا رہا تھا: ”دیکھو تو سہی… کتنی ساری کتابیں ہیں. یہ سرخ کتاب ہے. یہ سبز اور وہ نیلی.‘‘
بوڑھی لائبریرین (Mrs. Gallagher) نے دیکھا کہ دو بچے منہ اٹھائے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں. سرگوشی کرنے کے بجائے وہ زور زور سے باتیں کرنے لگی. لائبریری کی اس طرح توہین ہوتے دیکھ کر لائینل کو بہت افسوس ہوا.
”لڑکو کیا چاہیے؟‘‘ بوڑھی نے پوچھا.
”جی کتابیں‘‘ لائینل نے جواب دیا.
”کون سی کتاب؟‘‘
”سب کی سب‘‘
”یہ کیوں کر ہو سکتا ہے؟ ایک کارڈ پر چار کتابوں سے زیادہ نہیں دی جاسکتیں.‘‘
”میں کتابیں مانگنے تو نہیں آیا.‘‘
”تو پھر کس لیے آئے ہو؟‘‘
”کتابیں دیکھنے آیا ہوں‘‘
”کتابیں پڑھنے کے لیے ہوتی ہیں، دُور سے دیکھنے کے لیے نہیں.‘‘
دیکھنے کی اجازت نہیں ہے کیا؟‘‘
”ممانعت بھی نہیں ہے. اور یہ کون ہے؟‘‘
یہ یولی سیز ہے. غریب پڑھ نہیں سکتا.‘‘
”اور تم…؟‘‘
”میں ان پڑھ ہوں لیکن یہ بھی ان پڑھ ہے، اسی لیے ہماری دوستی قائم ہے. میرے کئی ساتھی پڑھے لکھے ہیں لیکن دوست سرف یہی ہے…‘‘
بوڑھی نے غور سے دونوں کو دیکھا… ”چلو کیا ہوا جو اَن پڑھ ہو، میں پڑھی لکھی ہوں. گزشتہ 60 سال سے کتابیں پڑھ رہی ہوں. کوئی خاص فرق نہیں پڑا. کتابیں دیکھنا چاہتے ہو، جاؤ دیکھ لو.‘‘
”جی بہت اچھا…‘‘

دونوں دوست اسی دنیا میں پہنچ گئے جو بے حد پراسرار تھی.
”یولی سیز دیکھ یی سب کتابیں ہیں… پتا نہیں ان میں کیا کچھ لکھا ہے. کیسے کیسے خزانے ان میں پوشیدہ ہیں. یہ سبز رنگ کی کتاب کتنی خوش نما ہے. نئی چمکیلی اور حسین…‘‘
اس نے ڈرتے ڈرتے اور صفحے پلٹنے لگا.
”دیکھا… اس میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے. یہ الف ہے… یہ دوسرا الف ہے… یہ کوئی اور حرف ہے… یہ بھی ضرور کوئی حرف ہوگا… سب کے سب مختلف ہیں.‘‘
لائینل نے لمبا سانس لیا… ”کبھی مجھے بھی پڑھنا آئے گا؟ جی بڑا چاہتا ہے کہ یہ حروف، الفاظ، فقرے پڑھوں. یہ تصویر دیکھی… کتنی حسین لڑکی ہے…‘‘
وہ ورق گردانی کرتا رہا… ”ساری کتاب میں فقرے ہی فقرے ہیں. ضرور ان کا کوئی مطلب ہوگا… خوب ہے یہ جگہ، جدھر دیکھو کتابوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں. لیکن پڑھنا نہ آتا ہو تو علم کا یہ خزانہ نرا گدھے کا بوجھ ہے. ہم دونوں اَن پڑھ ہیں، چلو گھر چلیں…‘‘
اس نے کتاب واپس رکھ دی. دونوں دوست پنجوں کے بل چلتے ہوئے لائبریری سے باہر نکل آئے.
یولی سیز خوش تھا آج ایک نئی چیز دیکھ لی.

(ولیم سروَین (William Saroyan) کی کتاب ”The Human Comedy‘‘ کا ترجمہ ”انسانی تماشا‘‘ از شفیق الرحمٰن، غالب پبلشرز، لاہور، صفحہ: 143 – 140)

نوٹ: اصل انگریزی ناول یہاں پڑھا جا سکتا ہے. اُردو ناول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں.

اپنا تبصرہ بھیجیں