اس تحریر کا عنوان پڑھنے میں یقیناً آپ کو تھوڑی سی مشکل پیش آئی ہوگی، روانی سے نہیں پڑھا جا رہا ہو گا۔ غالباً آپ سمجھ رہے ہیں یہ فارسی کا کوئی عنوان ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ پہلی بار یہ عنوان جب پڑھا جاتا تو ایسے ہی مشکل درپیش آتی ہے۔ لیکن جب اس میں چھپی پرتیں ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں، تو ہمارے لیے یہ عنوان بھی آسان ہو جاتا ہے، ہم اسی عنوان سے دنیا بھی گھوم لیتے ہیں، اُردو ادب کی چاشنی بھی لیتے ہیں، اور پیار و عقیدت کا ایک رشتہ بھی بن جاتا ہے۔ عربی زبان کے متعلق جب کہا جاتا کہ ایک ایک انداز کو بیان کرنے کے لیے الگ لفظ ہے۔ تو یہ مثال اس عنوان پر بھی صادق آتی ہے۔ اس کے بھی ہر انداز کو بیان کرنے کے لیے الگ لفظ آتا ہے۔ اس عنوان کو ہم آسانی سے کیسے پڑھ سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں اس میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے جو بھی اس گہری میٹھی جھیل میں ڈوبا، موتی چنتے چنتے ایک ایسی نگری میں چلا جاتا ہے، جہاں سے واپسی کو جی نہیں چاہتا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم سے مالا مال جھیل ہمارے اپنے دیس پاکستان میں ہے۔
یہ 1995ء میں بہار کی ایک دوپہر تھی، میں اپنے نانا/نانی کے گھر برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھا تھا۔ سامنے کھلے صحن سے آسمان اپنی خوب صورتی اور رنگ پر ناز کر رہا تھا۔ کہیں کہیں اَبر کی سفیدی بھی ہوا کے دوش محوِ سفر تھی۔ شاید ماحولیاتی آلودگی میں کمی کی وجہ تھی یا پچھلی صدی کا ایک ٹھراؤ تھا، جس کی وجہ سے آسمان دیکھنے میں بہت گہرائی تک اترتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ جو دوست احباب پچھلی صدی کے سحر سے باہر نہیں نکلے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ آج کے برعکس ہم بہت دیر تک آسمان کو دیکھ سکتے تھے۔ ہماری آنکھوں میں تھکن کے کوئی آثار نہیں ہوتے تھے۔ آج کے جدید دور میں یہ لمحات صرف اس وقت میسر آتے ہیں، جب خوب جم کر بارش برستی ہے، آسمان نکھر کر سامنے آتا ہے۔ باقی ایام میں آپ زیادہ دیر تک آسمان کی رنگت کو اپنی آنکھوں میں جذب نہیں کر سکتے۔ گرد و غبار، دھول اور دھویں سے اَٹے آسمان کو آخر آپ کتنی دیر تک دیکھ سکتے ہیں اور کیا اب بھی وہی سکون حاصل ہوتا ہے؟ یہ سوال میں آپ کے لئے چھوڑ کر واپس اپنے اصل مدعے پر آتا ہوں۔
برآمدے سے آگے کھلے صحن میں سے گھر کے عقب میں واقع ایک پارک میں موجود درختوں کا جھنڈ نظر آتا تھا، میں نگاہیں ٹکاۓ اس جھنڈ میں پرندوں کی آمدرفت کو دیکھ رہا تھا۔ پچھلی صدی میں دس سال کے بچے کے لئے یہ ایک کھیل و دلچسپی کا سامان ہوتا تھا۔ تب جدید ٹیکنالوجی کے حامل موبائل فون تو میسر نہیں تھے جن پر ایک کلک کر کے آپ سفاری پارک یا یورپ و امریکہ کے کسی باغ میں بیٹھے بُلبل اور کوئل کے گیت سُن سکتے ہیں۔ اُس دور میں جیتی جاگتی آنکھوں سے یہ مناظر گھر کے قریب باغوں میں نظر آتے یا درختوں پر بیٹھے پرندوں کے چہچہانے جیسے نظارے سے لطف اندوز ہوا جاتا تھا۔ میں بھی ایسے ہی نظارے میں گُم تھا۔
اسی اثناء میں بھاری بھرکم قدموں کی آواز نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ یہ میری نانی اماں کے بھائی تھے۔ بھاری ڈیل ڈول اور چھ فُٹ سے اوپر نکلتے قد کے مالک تھے۔ کھنکارتے ہوئے وہ بھی چارپائی پر براجمان ہوئے اور کچھ دیر گاؤں کے حال احوال اور عزیز و اقارب کی باتوں میں مشغول رہنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے۔ ہاں بھئی صاحبزادے اب کس جماعت میں پڑھ رہے ہو؟ انہوں نے ایک گرج دار آواز میں مجھ سے سوال کیا۔ میں نے دھیمے لہجے میں بتایا کہ میں اب جماعت پنجم (5th Class) میں ہوں۔ کچھ پڑھنا بھی آتا ہے یا رٹے مار رہے ہو؟، انہوں نے دوسرا سوال داغا۔ ابھی میں جواب دے بھی نہ سکا کہ تیسرا سوال بھی آن ٹپکا کہ چلو پھر مجھے ”مستنصر حسین تارڑ‘‘ کے سپیلنگ سناؤ۔ میں اس کارپٹ بمباری سے گھبرا گیا، یہ نام کیا بلا ہے؟ میرے ہوش و حواس گم ہو گئے۔ مجھے اپنے لیبارٹری ہائی سکول، زرعی یونیورسٹی، فیصل آباد کا مشہور نام اپنی کم علمی کی وجہ سے ڈوبتا محسوس ہوا۔ اپنے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے میں نے اپنی نانی اماں کے چہرے کی جانب دیکھا، وہاں ازل سے موجود پیار و شفقت والی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ لیکن یہ حوصلہ فوراً ٹوٹ گیا جب نانی اماں کے بھائی نے اپنے ترکش میں رکھا آخری تیر بھی مجھ پر یہ کہتے ہوئے چلا دیا: ”اگر سپیلنگ نہیں آتے تو ایک بار اُردو میں بول کر ہی بتا دو۔‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔
”مستنتڑحسینتسڑاڑڑ‘‘
یہ میرا ایک خوبصورت زندہ دل انسان سے پہلا تعارف تھا، گو کہ صرف نام ہی سہی۔ لیکن ایک منفرد نام تب سے دل میں بیٹھ گیا۔ آج بھی جب تارڑ صاحب کا نام کہیں آتا ہے، تو مجھے ایسا لگتا ہے میں اسی برآمدے میں بیٹھا ہوں لیکن اب میں بالکل صحیح تلفظ ادا کر سکتا ہوں۔ اب تو میرا امتحان لینے والا بھی اس دنیا میں نہیں اور اس مشکل امتحان میں بھی مجھے شفقت سے دیکھتے ہوئے میری نانی اماں کی آنکھیں بھی اس دنیا سے بند ہوئے چھ سال ہو گئے لیکن یہ منظر پچیس سال گزرنے کے بعد بھی ذہن میں نقش ہو کر ناسٹلجیا بن چکا ہے۔
آج مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ذکر کسی امتحان کے باعث نہیں بلکے ایک خوبصورت تحفہ کی صورت میں ہوا ہے جب مجھے ڈاک سے ایک پیکٹ وصول ہوا۔ سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور کی جانب سے آئے اس پیکٹ کو جب کھولا تو اس میں سے تین عدد خوبصورت کتابیں برآمد ہوئیں۔ مستنصر حسین صاحب کی تین خوبصورت کتابیں آپ کو یک مُشت مل جائیں تو آپ کی خوشی دیدنی ہو گی۔ کتابیں ہاتھ میں پکڑتے ہی میرا دل واپس اس برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھے دس سالہ بچہ کے پاس چلا گیا۔ بے اختیار میری زبان سے نکلا، ”مستنتڑحسینتسڑاڑڑ‘‘
دن بھر معاشرتی ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد مسلسل تین راتیں لگا کر یہ تین خوبصورت کتابیں ذہن نشین کیں:
1- صنم کدہ کمبوڈیا
2- ویت نام تیرے نام
3- ماسکو کی سفید راتیں
وباء کے دنوں میں گھر بیٹھے اگر آپ بدھ مت کے دیس سے چلتے چلتے روس کے منجمد پانیوں تک سیر کر لیں تو اس سے زیادہ آپ کی خوش قسمتی کیا ہو سکتی، نہ آپ کو بارڈر سیکورٹی فورس کا ڈر، نہ ائرپورٹ پر جامہ تلاشی، نہ سیکورٹی کلیئرنس کے مسائل، نہ ویزا لگوانے پر وقت کا ضیاع، نہ وہاں گزارے گئے دنوں کے اخراجات۔ حتٰی کے کتابیں بھی تحفہ میں آئی ہوں۔ اس سے زیادہ مال مفت، دل بے رحم کا محاورہ اور کیسے پورا کرتا۔
یوں تو کمبوڈیا کے اس سفرنامہ میں جہاں ہمیں، ٹیمپل آف لیپرکنگ، ایلیفنٹ گیلری، ٹومب ریڈرز ٹیمپل، انگ کورواٹ، پھنان باکھنگ مندر، بنت سامرے مندر اور کمبوڈیا، کے کھلے منظروں کو پڑھ کے ایسے لگتا جیسے ہم خود گھوم رہے ہوں۔
”ان میں سے ایک مندر، معبد سلمان کے مدِمقابل ہے، کسی قدیم مائیکل اینجلو کے ہاتھوں تراشا ہوا، دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں میں شامل ہوتا ہوا، یہ یونان اور روم کی تہذیب سے کہیں بڑھ کر شاندار عظمت کا حامل ہے۔ انسانوں کا نہیں جنات کا تخلیق کردہ لگتا ہے۔ جن لوگوں نے اس مندر کو نہیں دیکھا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس تعمیر میں کتنا تحمل، کتنی طاقت اور کتنی دانش استعمال کی گئی ہے۔ یہ انگ کورواٹ مندر ہے.‘‘
(ہنری موہاٹ کے 1860ء میں سیام، کمبوڈیا اور لاؤس کے سفرنامہ سے اقتباس)
ویت نام جو امریکہ جیسی سپر پاور کے لیے بھی ایک ڈراؤنا خواب بن گیا تھا۔ تارڑ صاحب کی بدولت وہاں کی بھی کافی سیر ہو گئی۔ عشروں جنگ کی تباہ کاریوں میں گھرا یہ ملک اور اس کا شہر ہنوئی اب دوبارہ امن کی طرف لوٹ آیا ہے۔ زندگی رواں دواں ہے۔ مقامی باشندے اپنا لوک گیت گاتے ہوئے فضا میں قہقے بکھیر رہے ہیں
میں چاردانگ عالم میں، جہاں بھی جاتا ہوں،
میرا دل ہنوئی کی جانب ہی پلٹتا ہے،
ہنوئی میری محبت۔
کبھی تباہ کن بمباری کی زد میں
لیکن اب یہ امن میں ہے
جادوئی تلوار والی نیلی جھیل کے پانیوں میں
اے محبوب تیرا عکس لرزاں ہے۔
(ویت نامی لوک گیت)
ماسکو کی سفید راتیں تو تارڑ صاحب نے جان لگا کر لکھا ہے۔ پچاس سال پہلے اور بعد کے حالات کا بہت خوبصورتی سے موازنہ کیا ہے۔ ولادی میر لینن سے ولادی میر پیوٹن تک کا سفر کیسے طے کیا۔ پوشکن، دوستوفسکی، ٹالسٹائی جیسے عظیم لوگوں کا تعارف بھی اس میں شامل ہے۔ جب آپ یہ سفرنامہ پڑھنا شروع کریں گے تو آپ کو محسوس ہو گا، آپ بھی تارڑ صاحب کی انگلی تھامے کسی گاؤں سے شہر آئے بچے کی طرح سرخ چوک کے آخیر میں واقع کلیسا سینٹ باسل کے پیاز نما کنبدوں کے عین وسط میں کھڑے، روسی موسیقی کی تان پر تھرکتے، شراب کے نشے میں جھومتے ایک سیلِ بے کراں کے ساتھ ہر چند منٹ بعد آتش بازی سے رنگین اور شوخ ہوئے آسمان کے سائے میں جشن کی رات منا رہے ہیں۔
قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں ”ہنوئی‘‘ کے بارے میں گایا گیا ویت نامی لوک ”Nhớ về Hà Nội‘‘ گیت پیش کیا جا رہا ہے. (مدیر)