”بہاولپور میں اجنبی‘‘ ادبی اصناف کی رو سے تو ایک سفرنامہ ہے مگر اسے دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ ایک طالب علم کی اپنی مادرِ عملی اور اس کے شہر سے محبت کا ایک دل آویز استعارہ ہے.
اس سفرنامے کا لفظ لفظ اس سچے جذبے کی گواہی ہے. اس کی سطر سطر میں ایک پردیسی طالب علم کا ناسٹیلجیا ہے اور اس کے حرف حرف سے چاہت کی خوشبو پھوٹ رہی جو قاری کو کیفیات کی ایک اور دنیا میں لے جاتی ہے. مظہر اقبال مظہر کی تحریر سادہ، پر اثر، رواں، پر خلوص اور ان کی انکساری و عاجزی کی مظہر ہے. یہ سفرنامہ دراصل ایک قلبی واردات ہے جو پڑھنے والے کے دل پر بھی ایک منفرد تاثر قائم کرتی ہے.
کتاب کے مندرجات ایک ایسی خوب صورت دنیا کی کہانی سناتے ہیں جو قیام پاکستان سے قبل ہی اس خطے میں اپنے عروج پر تھی. یہ ریاست بہاولپور کی ایک مختصر تاریخ بھی اپنے دامن میں سمیٹنے ہوئے ہے. سفرنامہ میں وہاں کے گلی کوچوں اور وہاں کی ثقافتی اقدار کا رنگ بھی ملتا ہے. اس ریاست کے مختلف محکموں اور ان کی کارکردگی کے جائزے کی جھلک بھی نظر آتی ہے. اس سفرنامے میں آپ کو سرائیکی لہجے کی شیرینی، بہاولپور کا صوفیانہ مزاج اور وہاں مقیم کشمیری طلباء کا ذکر بھی محظوظ کرے گا.
مظہر اقبال مظہر کا مشاہدہ ان کے اس ادبی فن پارے سے واضح ہوتا ہے اور ان کی شخصیت کا ایک علمی روپ قارئین کو دکھاتا ہے. اس سفرنامے کے ساتھ دو اعلٰی افسانے بھی کتاب کا حصہ ہیں جس سے اس کی قدر میں مزید اضافہ ہوگیا ہے. ان کے افسانوں کا، معیار تکنیک کے اعتبار سے بلند ہے.
البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے قیام بہاولپور کا حال سپرد قلم کرتے ہوئے نہایت اختصار سے کام لیا ہے. ہوسکتا ہے یہ ان کے علمی سفر کا پہلا حصہ ہو اور باقی احوال اگلی کتابوں کی زینت بنے.
مظہر اقبال مظہر کا یہ سفرنامہ ”بہاولپور میں اجنبی‘‘ زبان و بیان کی روایتی خوبیوں، سفرنامے کے جملہ لوزامات سے مزین صوری اور معنوی محاسن سے بھی آراستہ ہے جو قارئین کی توجہ ضرور حاصل کرے گا.
