محمد اقبال مغل ایک ابن سبیل شخصیت ہیں. وہ ایک ایسے سیلانی ہیں جو وطن عزیز کے گوشے گوشے میں محبت کے دیپ جلاتے اور نفرت کے اندھیرے مٹاتے دکھائی دیتے ہیں. ان کی منزلیں پربت پہاڑ، سرسبز وادیاں، خوب صورت جھیلیں اور دیگر کئی ان دیکھے مقامات ہیں. وہ اپنی خوش وضعی، خوش نظری اور خوش مزاجی کے باعث اپنے ہم سفروں میں بہت مقبول ہیں. وہ سیر و سفر کے دلدادہ ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے سفری تجربات اور مشاہدات و محسوسات کو کتابی شکل میں پیش کرنے کا آغاز کر دیا ہے.
ان کا اولین سفرنامہ ’’سکردو سیاحت‘‘ ان کے ادبی سفر کا پہلا پڑاؤ ہے. انہوں نے جس طرح سیر و سیاحت کو ایک تسلسل سے برقرار رکھا ہے، امید ہے کہ ان کا ادبی سفر بھی اسی نہج پر جاری و ساری رہے گا اور سفرنامے پڑھنے والے ایک نئے لکھاری کی تحریروں سے آشنائی پاتے رہیں گے.
مصنف کا یہ سفرنامہ ان کے رواں برس (2022ء) اگست میں کیے گئے سفر کا دل آویز حال پیش کرتا ہے.
اس سفرنامے کے مطابق وہ 2014ء میں شوگران، مارچ 2016ء میں ناران، اگست 2020ء میں ہنزہ، دسمبر 2020ء میں وادی کیلاش، مئی 2021ء میں وادی نیلم کا سفر بھی کر چکے ہیں مگر شوقِ سیاحت نشہ بڑھتا ہے، شرابیں جو شرابوں میں ملیں کے مصداق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے.
محمد اقبال مغل کا یہ سفرنامہ عام فہم انداز میں لکھی گئی ایسی سفری رودادِ ہے جس کو پڑھ کر ان تمام علاقوں کی سیاحت کا بے پناہ شوق جنم لینے لگتا ہے. مصنف نے اپنے سفر کا آغاز گوجرانوالہ سے کیا اور اسی مقام سے ان کے سفرنامے کا بھی آغاز ہوتا ہے. اپنے سفری ساتھیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے کھاریاں پہنچے. وہاں سے اسلام آباد، پھر وہاں سے رات سوا ایک بجے ایبٹ آباد کی طرف روانہ ہوگئے. ان کا اگلا دن وادی کاغان سے گزرنے میں بسر ہوا. وہاں سے جلکھڈ، بابو سر ٹاپ، گونر فارم سے ہوتے ہوئے سکردو پہنچے.
محمد اقبال مغل کا مشاہدہ گہرا ہے. وہ جہاں سے بھی گزرتے ہیں وہاں کی سیر قارئین کو کرواتے جاتے ہیں اور الفاظ کے بہترین چناؤ سے لاجواب منظر کشی کرتے چلے جاتے ہیں. ان کی طبیعت میں پائی جانے والی جولانی کئی مقامات پر محسوس کی جاسکتی ہے. وہ ہم سفروں کے ساتھ بات چیت کو بھی فطری انداز میں اپنے سفرنامے میں شامل کر لیتے ہیں جس سے پڑھنے والے کے سامنے ایک واضح نقشہ سا کھنچ جاتا ہے.
اس سفرنامے میں سیاحوں کے لیے معلومات کی کوئی کمی نہیں مگر مصنف نے اس خوب صورتی سے انھیں سفرنامے میں سمو دیا ہے کہ ان کی تحریر میں مزید دل آویزی پیدا ہو گئی ہے کیوں کہ کے معلومات کی بھرمار سے سفرنامہ ایک غیر دلچسپ اور اکتا دینے والا سفری کتابچہ بن کر رہ جاتا ہے.
اقبال مغل صاحب نے تحریر کے ان عیوب سے اپنا دامن بچاتے ہوئے نہایت لطیف پیرایہ اظہار اپنایا ہے.
ان کے سفرنامے کا مطالعہ شمالی علاقہ جات کے اہم شہر سکردو کی سیر ہی نہیں کرواتا بلکہ ان مشکلات سے بھی آگاہی فراہم کرتا ہے جو وہاں کا سفر کرنے والے سیاحوں کو عموماً جھیلنی پڑتی ہیں. کاش کوئی عوام دوست حکومت ہمارے دیرینہ دوست ملک چین کی مدد سے سارے شمالی علاقوں میں ریلوے کا اعلٰی اور جدید نظام قائم کر دے تو یقین مانیں سیاحت وہاں کی معیشت کو انتہائی قوی بنا دے گی اور وہاں خوشحالی کا دور دورہ ہو جائے گا.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق