یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ خودنوشت وہ ادبی صنف ہے جس میں مصنف اپنی زندگی کے تجربات، واقعات اور خیالات کو تحریری شکل میں پیش کرتا ہے۔ خودنوشت میں اکثر زندگی کے اہم واقعات، مشکلات،احساسات، جذبات، خیالات، کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ مگر ان تمام یادوں کو اتنی خوب صورت نثر میں پیش کرنا کہ ہر لفظ جڑاو موتی کا سا تاثر دے، ہر ایک کے بس کی بات نہیں. سلمان باسط کا یہ خاص وصف ہے کہ انھوں نے آراستہ و پیراستہ عبارات میں اپنی زندگی کے ایامِ گزشتہ کا تفصیلی تذکرہ لکھا ہے.
سلمان باسط کی اس خودنوشت ”ناسٹیلجیا“ میں زمانی اعتبار سے زندگی کے تین اہم ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے. بچپن، لڑکپن اور زمانہ طالب عملی. انھوں نے اپنی داستانِ زیست کو ناسٹیلجیا کا نام دیا ہے. نام سن کر ہی ایک ایسے جذباتی تجربے کا قوی احساس ہوتا ہے جو لوگوں کو ماضی کے خوشگوار لمحات کی یاد سے آشنا کرتا ہے۔ ناسٹیلجیا کا تجربہ اکثر لوگوں کو ایک خوشگوار اور فرحت بخش احساس کا گہرا تاثر دیتا ہے۔ سلمان باسط کی خودنوشت کا پہلا پڑاؤ اعلی اور متاثر کن ہے. ان کا اسلوبِ تحریر اتنا جاندار، پرکشش، پر اثر اور دلکش ہے کہ قاری اس ادبی چاشنی اور گھلاوٹ کا ذائقہ فراموش کر ہی نہیں سکتا. یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر کا جادو ہر سطر میں سر چڑھ کر بولتا ہے. ان کی یاداشت بھی کمال کی ہے. نقشِ اولیں میں جس طریقے سے انھوں نے اپنے مصری شاہ والے گھر کا منظر پیش کیا ہے، وہ نہایت ہی اثر انگیز اور لاجواب ہے.
اس کتاب میں قارئین کی دلچسپی کا وافر مواد موجود ہے. مصنف منظر نگاری ایسی کرتے ہیں کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے. کھاریاں کینٹ کے باغات کا وہ نقشہ رقم کیا ہے کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اسی گل و گلزار فضا میں موجود درختوں کے سائے اور مختلف النوع گلوں کی مہک سے لطف اندوز ہو رہا ہوں. اسی طرح منگلا کی رہائشی کالونی کی یادیں زیبِ قرطاس کرتے ہوئے انہوں نے جزئیات نگاری ایسی کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے. بلاشبہ ان کے ذہن پر یادوں کو نقوش بہت گہرے ہیں اور وہ انہیں اعلٰی ترین انداز میں پیش کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں.
سلمان باسط نے کتاب میں اپنے اساتذہ کرام کے جو خاکے شامل کیے ہیں وہ بذاتِ خود ایک الگ جہاں کی سیر کرواتے ہیں اور ان کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف گوشوں سے ہمیں آگاہ کرتے چلے جاتے ہیں. وہ ایک اعلٰی تخلیق کار ہیں. ان کی کتاب میں موجود خاکے، خاکہ نگاری میں ان کے عملی اور فنی رسوخ کے قابل ذکر شاہکار ہیں. یعقوب امجد اور مس نگہت و دیگر اساتذہ کرام کا تذکرہ تحریر کرکے انھوں نے ان مشفق و مہربان ہستیوں کا حق ادا کرنے کی قابل قدر کوشش کی ہے.
یہ کتاب ان کی خودنوشت کا پہلا پڑاؤ ہے جس کا اختتام ایم اے انگریزی کے آخری پرچے پر ہوجاتا ہے. اس کے بعد کیا کچھ بیتی وہ بھی یقیناً اہلِ علم اور قارئین کے لیے بے حد دلچسپی کی حامل ہوگی. سعودی عرب، امریکہ اور پھر وطن واپسی کے دوران جو کچھ پیش آیا ہے وہ بھی ان کے حافظے میں یقیناً محفوظ ہوگا. مجھے امید ہے کہ ”ناسٹیلجیا“ کے اگلے پڑاؤ بھی مقبولیت ضرور حاصل کریں گے.
”تانبے کی زمین“، شفیق اختر حر کے منفرد کالموں کا دوسرا مجموعہ – محمد اکبر خان اکبر
کتاب چھپوانے کا سفر، ایک دلچسپ رُوداد – عاطف ملک
”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر
تعلیم، تجارت اور خدمتِ ادب: کتاب فروش آن لائن بُک سٹور – حذیفہ محمد اسحٰق
”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر
”حسنِ مصر“ سے آشنائی – محمد اکبر خان اکبر
سلمان باسط اور ”ناسٹیلجیا“ کا پہلا پڑاؤ – محمد اکبر خان اکبر
اُردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نویس، منشی پریم چند – آمنہ سعید
نامور ادیب، پروفیسر تفاخر محمود گوندل کا بے مثال حجاز نامہ ”جلوہ ہائے جمال‘‘ – محمد اکبر خان اکبر
ممتاز شاعر اور ادیب، اکرم خاورؔ کی شاعری – آصف اکبر