”شاہد علی سحر‘‘، ہیرے موتی ہی نہیں تخلیق کار بھی برسوں میں جنم لیتے ہیں – حنیف سحر

انسانوں کی دنیا میں جو حیثیت اور حقیقت ہیرے اور موتیوں کی ہے وہ انسانوں اور تخلیق کاروں کی نہیں ہے۔ حالاں کہ کوئی بھی ہیرا اور موتی کسی انسان کی روح اور اس کے احساسات کو وہ خوشی اور سرشاری نہیں دے سکتا جو ایک تخلیق کار دے سکتا ہے، پھر بھی ہزاروں سال کی کھوج انسانوں کے ذہن و جسم کو اتنی دانش اور توانائی بھی نہیں دے سکی کہ وہ اس رمز کو سمجھ سکتے۔
میں نے ماضی میں لاہور سے نکلنے والے ”جگنو‘‘ رسالے میں ایک نوجوان کا انٹرویو دیکھا. یہ بچوں کا ایک خوبصورت میگزین تھا. تزئین و آرائش کے حوالے سے رنگوں کا استعمال بھی زیبائش بڑھانے کو سلیقے سے کیا گیا تھا، لیکن یہ کوئی اچنبے والی بات نہیں تھی۔ حیرت کے دریا میں غوطہ خوری تو مجھے اس لڑکے کو دیکھ کر کرنا پڑی. چھوٹی سی عمر، عہد شباب کے چڑھتے دریاؤں کا مسافر اور قسمت نے شکل صورت بھی منفرد عطا کی. کہنا چاہیے حسن آفرینی کی فراوانی ہی تھی۔ مستزاد یہ کہ جذبات سے لبالب بھری اس کی کہانی نے جیسے گرم لوہے پر زور کی چوٹ کا کام کیا اور مجھے شاہد علی سے ملنے اس تک پہنچنے کی تجسس خیزی نے جکڑ لیا. اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انٹرویو سے یہ پتا چل گیا تھا کہ وہ کراچی میں رہتا ہے۔
کورنگی کراچی میں، مَیں اور میرا دوست اقبال ناز ایک روشن دن کی مبارک ساعت میں شاہد علی کے گھر کے باہر کھڑے اس کے منتظر تھے. غیرمعمولی خلوص، پرتپاک سے وہ ملا اور مڈل کلاس گھر کے ستھرے ڈرائنگ روم میں ہمیں لے جاکر بٹھا دیا. اوروں سے زیادہ مہمان نوازی کے روایتی تاریخی تسلسل سے جڑے اس نوجوان کی ایک ایک ادا دلربائی کا نمونہ تھی۔ کچھ ہی دیر میں مجھے لگنے لگا کہ میرے دوستوں کی فہرست میں ایک اور دل پذیر اضافہ ہونے والا ہے۔
بس پھر کیا تھا ”ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ کو ایک اور ایوارڈ یافتہ مصنف میسر آگیا۔ اس کی کہانی جو پہلی بار اس نے مجھے دی، ایسے کہوں کہ سینہ چیر کے دل کو چھو لینے کے جوہرِ نایاب سے ہنرمند تھی تو یہ کچھ کم ہی ہوگا۔ چنانچہ پہلی ہی کہانی اونچائی کی اولین چوٹی پر جا براجمان ہوئی اور شاہد علی سحر ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ کے ایوارڈ یافتہ مصنفین کی اولین صف میں استادہ ہو گئے۔ جذباتی وہ بلا کا تھا، ایسے لوگ جو بھی کرتے ہیں ٹوٹ کر کرتے ہیں اور کبھی کبھی خود بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ احساس کو شعور کی کڑی میں تربیت سے کوڑا جمائی سے مرتب اس کی تحریر دھیان لگانے سے سارے وجود میں ہلچل مچادیا کرتی تھی۔
1984ء میں پہلی کہانی ”احساس ندامت‘‘ کے عنوان سے ”روزنامہ جسارت‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد چند ہی سالوں میں تمام معروف اخبارات اور رسائل میں کہانیاں شائع ہونے لگیں۔ ”ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں پہلی مرتبہ شائع کی جانے والی کہانی ”’خوب صورت پاؤں‘‘ ”ٹوٹ بٹوٹ مصنف ایوارڈ‘‘ کی حق دار قرار پائی۔ اس کے بعد مسلسل تین سال تک مختلف کہانیوں پر ”ٹوٹ بٹوٹ مصنف ایوارڈ‘‘ کا اعزاز ملتا رہا. یعنی ہیٹ ٹرک۔ ”ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں شائع کی جانے والی کہانی ”نقلی راجہ‘‘ شاہد کی زندگی کی ایک حسین یادگارہے۔ اس کہانی کے مرکزی خیال کے تحت معروف کالم نگار جاوید چودھری نے ایک کالم لکھا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، کتنوں کے ساتھ ہوتا ہے ایسا؟ یہ ہی انفرادیت اس کی اسلوب یاتی پہچان بنی۔ دوسری یادگار کہانی ”میرا پاکستان‘‘ ہے جو 1987ء میں ”ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ میں ہی شائع ہوئی۔ اس زمانے کا ایک واقعہ ناقابلِ فراموش ہے۔ شاہد کی ابلتے جذبات اور ولولوں سے امنڈتی ایک کہانی پڑھ کربڑے بھائی روتے ہوئے اس کے پاس آئے اور باقاعدہ غصہ کرتے ہوئے بولے: ”ایسی کہانی کیوں لکھتا ہے کہ بندہ بے اختیار رونے لگ جائے.‘‘ یہ شاہد کی کہانیوں کا وہ سچ ہے جو صرف سچے اور حقیقی تخلیق کار کی میراث ہوا کرتی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے لکھی گئی دلخراش کہانیوں نے بھی ایسے ہی موسموں کو نوحہ گری کی دعوت دی۔
کہتے ہیں ایک مرتبہ ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ میں کہانی شائع ہوئی اور تعارف کے ساتھ گھر کا ایڈریس بھی شائع ہوا۔ جس کے نتیجے میں شاہدعلی سحر کے چاہنے والوں نے خطوط کے ڈھیر لگا دیئے۔ یہی محبت کسی فنکار کا سب سے بڑا اعزاز ہوا کرتی ہے۔ ان خطوط میں ہندوستان سے موصول ہونے والے خط بھی تھے۔
شاہد کی کسرِ نفسی اور بے مثال تہذیبی تناظر کا ہی یہ شناخت نامہ ہے کہ انھوں نے میرے بارے میں کہا:
”حنیف سحر رابطہ نہ کرتے تو شاید میں شعبہ ادب سے روشناس نہ ہوتا.‘‘

جب کہ سچ تو یہ ہے کہ جوہر تو وہ خود ہے جیسے کوئی چقماق ہوتا ہے اپنی طرف کھینچتا ہو، ہم بھی کھنچے چلے گئے تھے۔ مصطفٰی ہاشمی، شاہد علی سحر کے سب سے زیادہ قریبی ادبی دوست ہیں۔ نشید آفاقی بھی ان کے دل کے قریب ہیں۔ کئی دہائیوں پر محیط یہ دوستی آج بھی اول دن کی طرح تروتازہ ہے۔ 1991ء میں مصطفٰی، محبوب اور رؤف کے ساتھ مل کر ”ماہنامہ انوکھی کہانیاں‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا جسے آج بھی محبوب الٰہی مخمور پابندی سے شائع کرتے ہیں۔
1992ء میں دعوۃ اکیڈمی کے شعبہ بچوں کے ادب کے تحت اسلام آباد میں پاکستان بھر کے لکھاریوں کے لیے ایک تربیتی کیمپ منعقد کیا گیا جس کے دوران پاکستان بھر کے ادیبوں کو مربوط رکھ کر بچوں کے ادب کے فروغ کے تحت دعوۃ اکیڈمی کے زیرِ انتظام ایک تنظیم پاکستان ینگ رائیٹرز فورم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے انتخابات میں شاہد علی سحر کو متفقہ طور پر صدر منتخب کیا گیا۔ تنظیمی مصروفیات اور بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے سرگرمیوں کے باعث اس کا کاروبار ختم ہو گیا۔ 2001ء میں روزگار کے سلسلہ میں لندن چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد والدین کے حکم پر واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ لکھنا موقوف ہوا لیکن دل مچلتا ہے اب بھی اور۔۔۔ اب بھی مجلس ادب اطفال شاہد علی سحر کو بلاتی ہے۔

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

ادبی محفلوں اور دبستانوں میں وہ سارے منظر اب بھی آراستہ ہیں جہاں کبھی محفل طرب بپا ہوا کرتی تھی. شاہد علی سحر نے ادب اور تخلیق سے جو محبت کی اسے بھولنا، راہِ عشق کے کسی بھی منظر نما کے بس میں نہیں۔


نوٹ: حنیف سحر، سینئرصحافی، ڈراما نگار،ادیب و سابق مدیر ”ماہنامہ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ ہیں.

”شاہد علی سحر‘‘، ہیرے موتی ہی نہیں تخلیق کار بھی برسوں میں جنم لیتے ہیں – حنیف سحر” ایک تبصرہ

  1. محبوب الٰہی مخمور ، مدیر اعلیٰ انوکھی کہانیاں کراچی says:

    ایک اور بہترین کالم کا کتاب نامہ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کتاب نامہ اپنے حصے کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ ماشاءاللہ آ پ کی جانب سے انتہائی خوبصورتی سے تحریر کی اشاعت ہوتی ہے کہ دل خوش ہوجاتا ہے۔ سس سلسلے میں انتظامیہ ویب سائٹ مبارک باد کی مستحق ہے۔ محبوب الٰہی مخمور مدیر اعلیٰ انوکھی کہانیاں کراچی

تبصرے بند ہیں