یہ افسانوی مجموعہ معروف ادیب و افسانہ نگار جناب اختر شہاب کے 18 افسانوں پر مشتمل ہے جس میں ان کا فن نہایت منفرد انداز سے قاری سامنے آتا ہے. اس افسانوی مجموعے میں شامل تمام افسانے اپنی کرافٹ اور بنت کے اعتبار سے بہترین معلوم ہوتے ہیں. ان کے اس افسانوی مجموعے میں شامل نمائندہ افسانوں میں صبح تمنا، چلمنی، حق شفا، مرد کا بچہ، بڑی امی، بے حسی، یقین کامل، بنت حوا، بے بسی، اب کہاں جاؤں، تھکن، قبولیت، جلاد، لمحہ جاں گسل، اور من تراش شامل ہیں. ان کے بیشتر افسانوں میں کوئی نہ کوئی مقصد پوشیدہ جس سے قاری یقیناً سبق اندوز ہو سکتا ہے. اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ادب میں مقصدیت کے قائل ہیں.
اختر شہاب نے نہایت باریک بینی سے عام فہم اور عام بول چال کی زبان میں افسا نے تحریر کیے ہیں جن میں معاشرتی استفادے کی بھرپور کارفرمائی دکھائی دیتی ہے. ان کے اس مجموعے میں شامل کئی افسانے ایسے ہیں جن میں جدید حیثیت اور اسلوبیاتی کاریگری اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مصنف زندگی کے مسائل پر خارجی ادراک ہی نہیں بلکہ داخلی کیفیات سے بھی پوری طرح واقف ہیں. کتاب کے بیشتر افسانوں میں معاشرتی گہما گہمی سے لبریز فضا دکھائی دیتی ہے. ”من تراش“ کے مصنف نے افسانہ نگاری تو حقیقت نگاری کے ساتھ اس طرح باہم جوڑا ہے کہ وہ افسانہ ہونے کے باوجود حقیقت سے قریب تر محسوس ہوتا ہے. معاشرے سے کہانیوں کا یہ انصاف ان کی گہری مشاہداتی نظر کا ثبوت ہے. اچھے افسانے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو جلد اپنے سحر میں لے لیتا ہے جس سے قاری اس وقت آزاد ہوتا ہے جب وہ افسانہ ختم کر لیتا ہے. ڈاکٹر خیال آفاقی اپنی اہم تحقیقی کتاب ”اردو افسانہ، فن، ہنر اور متنی تجزیے“ میں لکھتے ہیں کہ ”افسانہ ایک مخصوص تخلیقی عمل ہونے کے باوصف ایک جمالیاتی تجربہ بھی ہے جو ہمیں معنی کی تلاش کے ساتھ ساتھ فرحت و انبساط سے بھی مالا مال کرتا ہے لیکن چوں کہ اس کی اساس خالصتاً ارضی ہے، یہ اجتماعی زندگی سے اس طرح جڑا ہوا ہے جیسے کسی قد آور درخت کے ساتھ عشق پیچاں کی بیل، اس لیے کسی گلشن نہ آفریدہ یا دوسرے لفظوں میں کسی ماورائی دنیا سے براہ راست اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا.“
اختر شہاب کے افسانے ہمارے معاشرتی اور سماجی رویوں کی منظر کشی کرتے معلوم ہوتے ہیں. انھیں کفایت لفظی اور حسنِ بیان پر گرفت حاصل ہے. ان کا فنِ افسانہ نگاری تقریباً ہر افسانے میں بلندی پر دکھائی دیتا ہے. ان کی تحریر میں انفرادیت اور اثر انگیز خاصیت جھلکتی ہے. امید ہے کہ ان کے مزید افسانوی مجموعے شایع ہوکر قارئین کی ادبی پیاس بجھاتے رہیں گے.
اسد محمد خان، فن اور شخصیت – شہزینہ شفیع
سلام بن رزاق نے کردار نہیں رویے خلق کیے ہیں: سرفراز آرزو
ادبی فورم، ریاض کے زیرِ اہتمام حج سے واپسی پر حسان عارفی کی تہنیت میں ادبی نشست
معروف ادیب اختر شہاب کا افسانوی مجموعہ ”من تراش“ – محمد اکبر خان اکبر
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد مانگٹ کا بے مثل سفرنامہ، ”پھر چلا مسافر“ – محمد اکبر خان اکبر
شکریہ ”الفانوس“ – حسنین نازشؔ
یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں کی روداد
”خود کی تلاش“، اختر سردار چوہدری کی کہانی کاری – محمد اکبر خان اکبر
”صاحبِ اقلیمِ ادب“، بے بدل صحافی، مدیر اور ناول نگار کو خراجِ تحسین – محمد اکبر خان اکبر
معروف ادیب، مضمون نگار اور سفرنامہ نویس طارق محمود مرزا کا ”مُلکوں مُلکوں دیکھا چاند“ – محمد عمران اسحاق