قائداعظمؒ لائبریری – حنا انور

پاکستان میں اگر جدید سہولیات سے لیس، خوبصورت، جدید اور پرسکون لائبریری کا ذکر کیا جائے تو ”قائداعظمؒ لائبریری‘‘ کا نام سرفہرست آئے گا۔ یہ لائبریری لاہور کے دل میں واقع باغِ جناح میں قائم ہے۔ لائبریری میں اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی کتابوں کے ہزاروں مجموعہ جات موجود ہیں۔ نہ صرف تاریخ اور روایتی کتابیں بلکہ بزنس ایڈمنسٹریشن، ٹیکنالوجی، آرٹ اور کمیونیکیشن کا بھی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر سال 3000 کتابوں کا سالانہ اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔
گورنر پنجاب جنرل جیلانی کے حکم پر باغ جناح لاہور میں ایک ماڈل لائبریری قائم کرنے کے لیے 17مئی 1981ء کو چیف سیکرٹری پنجاب کی زیر صدارت ایک کمیٹی بنائی گئی۔ پرانے جم خانہ کی عمارت کو لائبریری میں تبدیل کرنے کے لیے تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا۔ جنرل غلام جیلانی نے اس میں ذاتی دلچسپی کا اظہار کیا اور 24 اکتوبر 1981ء کو جنرل ضیاء الحق نے باغ جناح کا دورہ کیا اور لائبریری کے منصوبے کی منظوری دے دی۔ دسمبر 1984ء کو لائبریری کا صدر پاکستان نے افتتاح کیا گیا اور اسے قائداعظمؒ لائبریری کے نام سے موسوم کردیا گیا۔ لائبریری کو مختلف سیکشن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حوالہ جاتی سیکشن، اورینٹل سیکشن، لیڈیز سیکشن اور سمعی و بصری ایڈ سیکشن۔ اس کے علاوہ لائبریری میں ایک خوبصورت آڈیٹوریم بھی بنایا گیا ہے جہاں مختلف قسم کی کانفرنس، سیمنار اور ورکشاپ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ لائبریری کا فرنیچر نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی طرف سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ محمد عابد گل چیف لائبریرین قائداعظمؒ لائبریری میں 1982ء سے کام کر رہے ہیں۔ ایم اے کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن میں ان کی سلیکشن ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ آغاز سے ہی میں اس ادارے سے منسلک ہوں، بطور اسسٹنٹ لائبریرین، سینئر لائبریرین اور اب میں چیف لائبریرین کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ انہیں پچھلے دنوں حکومت پنجاب کی جانب سے Best Public Service Award سے بھی نوازا گیا ہے۔ اس ایوارڈ کو Outstanding Performance of Civil Servant کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ”اس کے باوجود مجھے یہ ایوارڈ دیا گیا میں ایک روائتی سول سرونٹ نہیں ہوں بلکہ ایک پروفیشنل آدمی ہوں اور میں بطور لائبریرین کام کرتا ہوں، مگر اس ادارے کے کام، معیار اور پبلک سروس میں اعلیٰ کارکردگی کے مسلسل مظاہرے کے باعث مجھے اس ایوارڈ کے قابل سمجھا گیا۔ ایک لحاظ سے تو یہ سارے لائبریرین کے لیے عزت اور وقار کا حامل ہے۔‘‘
یہ لائبریر ی پاکستان کی واحد لائبریری ہے جو ریسرچ اینڈ ریفرنس کے طور پر کام کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ایک پبلک لائبریری نہیں ہے جب کہ لوگوں میں اس کا تاثر پبلک لائبریری ہی کا ہے بلکہ یہ ریسرچ کو پروموٹ کرتی ہے۔ ہمارے پاس جو اس وقت ممبر شپ ہے اس میں 92 فیصد ممبران Ph.D ہیں جب کہ 800سے زائد ممبران M.phil کے طالب علم ہیں۔ ہم ان سے متعلقہ جتنا بھی مواد ہو سکتا ہے، ان کو مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے پاس 350 کے قریب میگزین آتے ہیں جس میں تقریباً 35 روزنامے ہیں، ساتھ ہی 5غیر ملکی روزنامے شامل ہیں ۔
لوگوں کے ذہن میں ایک غلطی فہمی پائی جاتی ہے کہ ایک گھر میں بیٹھا ہوا شخص Digital Sources تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ Google پر ملین کی تعداد میں آن لائن کتابیں موجود ہیں۔ اس کو علیحدہ ترتیب دینا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ اصل کام لوگوں کو Sources اور Database تک رسائی کے متعلقہ صحیح معلومات فراہم کرنا ہے۔ جب کہ ہمارے پاس ساڑھے چودہ ہزار آف لائن کتابیں موجود ہیں۔ اب چوں کہ کاپی رائٹ کا مسئلہ ہوتا ہے اس لیے ہم انھیں ویب پراپ لوڈ نہیں کر سکتے۔ جب کہ ممبران یہاں بیٹھ کر ان کو Access کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے حوالے سے خاص طور پر دو شعبہ جات ایسے ہیں جن میں، میں سمجھتا ہوں ہم نے بہت کام کیا ہے۔ ایک ہے CSS اور دوسرا ریسرچ۔ CSS کے حوالے سے ہم نے حال ہی میں ایک پورا سیکشن تیارکیا ہے جسے CSS Collection کہتے ہیں اور اس میں سلیبس کی مجوزہ کتابیں اور ان کی سپورٹنگ کتابیں، وہ سب ہم نے رکھی ہیں۔ اس میں ہم نے CSS کے حوالے سے ایک اور منفرد کام کیا ہے کہ ہم آن لائن اخبارات اور دیگر میگزین کے Press clipings بناتے ہیں، مختلف موضوعات پر۔ کسی بھی مخصوص موضوع پر جو کچھ بھی اخبارات و میگزین میں آتا ہے ہم اس کی کلپنگ کر کے ایک فولڈر میں رکھتے جاتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل اور پرنٹ دونوں صورتوں میں ہمارے پاس موجود ہے اور طلباء اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دہشت گردی کے حوالے سے جو بھی مضامین اخبارات میں چھپے ہوں وہ آپ کو ایک ہی جگہ سے مل جائیں گے۔ اسی طرح کتابوں کے حوالے سے بھی ہم نے کافی پیش رفت کی ہے اور بیرونَ ملک سے بھی بہت ساری کتابیں منگوائی ہیں۔ علاوہ ازیں ایم فل، پی ایچ ڈی کے حوالے سے بھی ہمارے پاس اچھی کولیکشن موجود ہے۔ ہم خاص طور پر نئی کتابیں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سال بھی ہم نے جو کتب خریدی ہیں ان میں سے کوئی بھی کتاب ایسی نہیں جو سال 2012ء یا 2013ء سے پہلے طبع ہوئی ہو۔ ہم نے لیب ٹاپ کے لیے بھی پرپوزل بھجوا دیا ہے، یہ ممبرز کے لیے ہوں گے نہ کہ اسٹاف کے لیے۔
82ء میں جب ہم نے اس لائبریری کے پراجیکٹ کا آغاز کیا تو اس وقت یہاں آرمی کورٹ تھی۔ گورنر جیلانی نے ہی اس پراجیکٹ کو آگے بڑھایا اور اسے لائبریری میں تبدیل کر دیا۔ ان کے بعد ان ہی کے نام سے ”غلام جیلانی ریسرچ اسکالر روم‘‘ قائم کیا گیا ہے۔ وہ روزانہ شام کو گورنر ہائوس سے پیدل یہاں پہنچ کر ایک ایک سیکشن کے لیے ہدایات دیتے تھے۔
اورینٹئل سیکشن میں وہ تمام کتابیں ہیں جو لوگوں نے عطیہ کی ہیں۔ ایک پورے سیکشن میں کتابوں پر MI Code تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ شیخ منظور الٰہی کی عطیہ کی گئی کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس طرح QJ، کراچی کے ایک مشہور آدمی ہیں قمر جعفری، یہ ان کی کتابوں پر مشتمل سیکشن ہے۔ اسی طرح مساوات کے ایڈیٹر صفدر میر کی عطیہ کردہ کتابوں کا بھرپور کولیکشن دیکھا، جو سات ہزار کتابوں پر مشتمل تھا۔
مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد عابد گل نے بتایا کہ ہمارا ایک پراجیکٹ سولر انرجی کے حوالے سے چل رہا ہے۔ اللہ نے چاہا تو اس مالی سال میں ہم اسے مکمل کر لیں گے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے ہمیں 8 ملین کی امداد ملی ہے۔ علاوہ ازیں ہم چاہتے ہیں کہ CSS کا شعبہ اور کمپیوٹر لیب سولر پر ہو جائیں تا کہ لوڈشیڈنگ کے باعث پڑھنے والوں کی مشکلات کو کافی حد تک ختم کیا جا سکے۔ شام کو خاص طور پر یہ مسائل بہت بڑھ جاتے ہیں۔ لائبریری میں ہماری ملاقات چند ہونہار طلبہ و طالبات سے بھی ہوئی، ان کے تاثرات بھی ذیل میں دیے جارہے ہیں:
محمد ثاقب (پی ایم ایس) یہاں صبح آتے ہیں، پورا دن جتنی پڑھائی ہو سکے کرتے ہیں اور شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ یہاں پر پڑھائی کا مواد بھی اتنا ہے کہ کہیں اور جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ابھی انھوں نے کافی مواد آن لائن بھی کر دیا ہے اور اس پر مزید کام بھی کر رہے ہیں۔ یہاں جو سب سے بڑا فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ International Journals اوردیگر Database تک رسائی ممکن ہے۔ ہم بھی جب جب ضرورت محسوس ہوتی ہے ان کو Access کرتے ہیں۔ کیوں کہ آپ جانتی ہیں کہ مقابلے کے امتحان میں صرف کتابیں ہی کافی نہیں ہوتیں۔ کہیں سے بھی وہ سوالات پوچھ سکتے ہیں، اس لیے آپ کو Update رہنے کے لیے مختلف International Journals، Periodicals اور میگزین Consult کرنا پڑتے ہیں۔
فاکیہ (سی ایس ایس): یہاں پر میری ضرورت کا تمام مواد آسانی سے مل جاتا ہے، جو نوٹس بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ میرا یہی ماننا ہے کہ شاید ہی پورے پاکستان میں اس سے اچھی اور بہترین لائبریری کوئی اور موجود ہو۔ اس کے علاوہ یہاں آپ کو اور بھی سی ایس ایس کرنے والوں سے رابطہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سینئر اور جونیئر آپس میں ملتے ہیں اور ان کو دیگر موضوعات زیادہ وضاحت سے سمجھ میں آتے ہیں۔
محمد شہزاد (سی ایس ایس): میں یہاں روزانہ 8 سے 9 گھنٹے مطالعہ کرتا ہوں۔ یہاں کا ماحول بہت پرسکون ہے جو کسی اور جگہ طلبا کو میسر نہیں آتا۔ خاص طور پر مقابلے کے امتحانوں کی تیاری کے لیے یہاں بین الاقوامی جرنلز تک جو رسائی ممکن ہے، یہ میرے لیے بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔
الیاس محمد فاسکری :(CSS Fellow) ہمیں کہیں اور جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، خاص طور پر یہاں کا ماحول بے حد پرسکون ہے۔ لائبریری میں بہت ترقی ہوئی ہے، نئے سیکشن بھی بنے ہیں۔ ہر قسم کے میگزین اور اخبارات یہاں موجود ہیں۔ نہ صرف کتابیں بلکہ یہ بھی میرے لیے بہت سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سی چیزیں مارکیٹ میں نہیں ملتی وہ بھی یہاں سے مل جاتی ہیں، جیسے انٹرنیشنل میگزین، اداروں کی سالانہ تجزیاتی رپورٹس وغیرہ۔

(اُردو ڈائجسٹ)