”سمندر گنگناتا ہے‘‘، ادبِ اطفال میں ایک منفرد اضافہ – محمد اکبر خان اکبر

جس معاشرے میں ادبِ اطفال کی شہرت اور طلب ہو، جہاں بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کی سرپرستی کی جاتی ہو، وہیں عالمی معیار کا اعلٰی اور ارفع ادب جنم لیتا ہے. یہ ایک عمومی مشاہدہ ہے جس سے اختلاف کرنا عین ممکن ہے لیکن ادبِ اطفال کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے. ایک زمانہ تھا کہ ملک کے طول و عرض میں بچوں کی کہانیاں خوب پڑھی جاتی تھیں. بہت سے تخلیق کار صرف بچوں کے لیے ہی لکھا کرتے تھے. پھر رفتہ رفتہ تفریح کے دیگر ذرائع نے ادبِ اطفال پر برتری حاصل کر لی اور گلی گلی محلے محلے میں قائم چھوٹی چھوٹی لائبریریوں کا وجود مٹ کر رہ گیا. صوبہ بلوچستان میں بھی ادبِ اطفال کی شمع روشن رہی ہے. ابتدائی دور کے بارے میں وطنِ عزیز کے نامور محقق و مصنف ڈاکٹر انعام الحق کوثر اپنی مشہور تحقیقی کتاب ”بلوچستان میں اُردو ادب کے سو سال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ”بلوچستان سے بچوں کے لیے شایع ہونے والا پہلا ماہنامہ سن 1938ء میں اسلامیہ ہائی سکول نے چھاپا، جس کے ایڈیٹر خواجہ عبدالحئی اور اسسٹنٹ ایڈیٹر مینجر کمال الدین احمد تھے. بلوچستان میں ہی 1939ء میں محکمہ تعلیم نے ”چشمہ‘‘ کے نام سے ایک 15 روزہ رسالہ جاری کیا. 1939ء ہی میں ”ہماری بہترین کوشش‘‘ خالصہ ہائی سکول، کوئٹہ سے شائع ہونے لگا. قیامِ پاکستان کے بعد پہلا رسالہ ”باغ و بہار‘‘ کے نام سے 1950ء میں فیض اللہ خان نے جاری کیا. اس کے بعد کمال الدین احمد نے ”بچوں کا شاہین‘‘ جاری کیا. اس کے علاوہ بلوچستان کے مشہور شعراء کرام نے بچوں کے لیے نظموں کے مجموعے ترتیب دیے ہیں. براہوی اکیڈمی، بلوچستان نے بھی اُردو زبان میں ادبِ اطفال کے حوالے سے کہانیوں کے مختلف مجموعے شائع کیے ہیں، جن کے مصنفین میں عائشہ مینگل کا نام خصوصیت سے سر فہرست ہے.‘‘
”سمندر گنگناتا ہے‘‘ کے عنوان سے، بلوچستان سے بچوں کی منتخب کہانیوں کا تازہ مجموعہ سامنے آیا ہے جس کے مولف و مدیر شیخ فرید صاحب ہیں، جن کا نام ادبِ اطفال کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں. انہوں نے یہ مجموعہ نہایت خوبی اور محنت سے ترتیب و مدون کیا ہے. اس مجموعے میں بلوچستان کے مختلف مصنفین کی 22 کہانیاں شامل ہیں جن میں شیخ فرید، ڈاکٹر عبدالرشید آزاد، ڈاکٹر عنبرین مینگل، ببرک کارمل جمالی، غزالہ بٹ، ڈاکٹر راحت جبین، محمد اکبر خان، امداد علی مینگل، اکبر علی سا سولی، تسنیم صنم، پروفیسر مظہر سیماب گوہر، ڈاکٹر فردوس انور قاضی اور آغا گل شامل ہیں. شیخ فرید کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ”میرا چوں کہ بنیادی تعلق بچوں کے ادب سے تھا اور اب بھی کسی نہ کسی حوالے سے جڑا ہوا ہے، تو ایک خواہش تھی کہ ادبِ اطفال کی نسبت سے بڑے ادیبوں کی، بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیوں کو ایک لڑی میں پرو دیا جائے. اگرچہ اس سے قبل میری بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتاب ”پھول اور چراغ‘‘ منظرِ عام پر آچکی ہے مگر میرے بہت ہی قابلِ قدر دوست جو ادب شناس ہی نہیں، کتاب دوست اور علم کے علمبردار بھی ہیں، انہوں نے میری دیرینہ خواہش کو امر کر دیا.‘‘
کہانیوں کا یہ مجموعہ اعلٰی اور معیاری کہانیوں کا پر مشتمل ہے. البتہ کہانیوں کی تعداد قدرے کم محسوس ہوتی ہے. بہتر ہوتا کہ بلوچستان میں ادبِ اطفال تخلیق کرنے والے دیگر تخلیق کاروں کی تخلیقات کو بھی اس کتاب کا حصہ بنایا جاتا. کہانیوں کی محدود تعداد کی وجہ سے کتاب کی ضخامت بھی کم ہے. کتاب میں چوں کہ مختلف مصنفین، ادیبوں اور شعراء کرام نے اپنی اپنی تخلیقات شامل کی ہیں، اس لیے ہر ایک کا اسلوب منفرد اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے. البتہ تمام کہانیوں میں یہ بات مشترک دکھائی دیتی ہے کہ کہانیاں اپنے دلچسپ موضوع اور بنت کے اعتبار سے کافی اثر انگیز ہیں. تقریباً تمام کہانیوں میں سبق اندوزی کا عنصر موجود ہے. مجھے امید ہے کہ بچوں کی کہانیوں کا یہ مجموعہ بچوں میں مقبولیت حاصل کرے گا. میری خواہش ہے کہ یہ کتاب بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں ضرور موجود ہو. اس کتاب کو ”مہردرریسرچ اینڈ پبلیکیشن، کوئٹہ‘‘ نے ”بلوچستان رائٹرز گلڈ (برگ)‘‘ کے اشتراک سے، بہت اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے.