”مشاہیرِ بلوچستان“، پروفیسر سید خورشید افروزؔ کی متاثر کن تحقیق – محمد اکبر خان اکبر

ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ ”عمدہ تخلیق کاری مراکز کی مرہون منت نہیں ہوتی.“ اس بات کا ثبوت دیکھنا ہو تو پروفیسر سید خورشید افروزؔ کو ہی دیکھ لیں. وہ بلوچستان کے ایک نسبتاً چھوٹے سے شہر لورالائی کے باسی ہیں. ادبی مراکز سے کافی فاصلے پر ہونے کے باوجود صلے کی تمنا اور ستائش کی پروا کیے بغیر بے لوث ادبی خدمات کی انجام دہی میں ہمہ وقت مصروفِ عمل نظر آتے ہیں. ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اور یہی ان کی زندگی کا زینہ سید خورشید افروزؔ وطن عزیز کے نامور صحافی، ماہرِ تعلیم، شاعر، ڈرامہ نگار اور محقق ہیں. بلوچستان کے ادبی افق پر ان کا سب سے جگمگاتا کام ”مشاہیر بلوچستان“ کے نام سے سامنے آیا ہے جو سات ضخیم جلدوں کی صورت میں شایع ہو چکا ہے. اس کے علاوہ ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام بھی شایع ہو چکے ہیں. تن تنہا انھوں نے اتنا کام کیا ہے جتنا کوئی ادبی انجمن بھی بہ مشکل کر پاتی ہے. ان کا یہ سلسلہ کتب بلوچستان کی ادبی تاریخ ہے جس میں زمانی اعتبار سے سرزمین بلوچستان کے شعراء کرام، ادیبوں اور نثر نگاروں کا تذکرہ تحریر کیا گیا ہے. پہلی جلد اردو شاعری کے سو سالہ دور سے متعلق ہے جس میں 1830ء تا 1930ء بلوچستان کے شعراء کرام کے مختصر حالاتِ زندگی اور نمونہ کلام شامل ہیں. یہ جلد تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے. دوسری جلد میں بلوچستان میں اردو شاعری کے 1930ء سے 1960ء تک کے تیس سالہ دور میں سرگرم شعراء کے حالات زیست موجود ہیں. یہ جلد بھی کافی ضخامت پر محیط ہے جس میں تقریباً پانچ سو صفحات ہیں. ”مشاہیرِ بلوچستان“ کی تیسری جلد 1957ء سے 2016ء تک شعراء کرام کا احاطہ کرتی ہے.

”مشاہیرِ بلوچستان“ کی جلد چہارم صوبہ بلوچستان کی ادبی انجمنیں اور اکیڈمیز کے بارے میں معلومات پر مشتمل ہے. ”مشاہیرِ بلوچستان“ کی جلد پنجم میں بلوچستان کی خواتین کی اردو شاعری کے 100 سالہ دور 1915ء تا 2014ء کا تذکرہ ہے. اسی سلسلے کی چھٹی جلد کی اشاعت 2019ء میں ہوئی جس میں، بلوچستان میں اردو نسائی نثری ادب کے 100 سالہ دور کا احاطہ کیا گیا ہے. جب کہ ”مشاہیرِ بلوچستان“ کی جلد ہفتم (اشاعت: 2019ء) میں 1966ء تا 2016ء خواتین کے نسائی ادب کو موضوع بنایا گیا ہے. شعورِ ادب ان کی تخلیقات کا اہم ترین عنصر ہے جس کی عدم موجودگی کی صورت میں اتنا بڑا تحقیقی تالیفی کام ناممکن ہے.
ان کی ہر تخلیق اور ہر تحقیق اپنے وجود کا احساس فنکارانہ انداز میں خود ہی کروا دیتی ہے. ان کی کتابوں کے مندرجات اس امر کی مضبوط اور مستند گواہی دیتے ہیں کہ ادبی گروہ بندی کے اس دور میں بھی پروفیسر سید خورشید افروزؔ کا کردار اس خورشیدِ پرنور جیسا ہے جو تمام تر تعصبات سے بڑھ کر ادبی خدمات کا سچا اور کھرا معترف ہے، جس کی عمیق نگاہوں سے کسی بھی ادیب کے فنی محاسن اوجھل نہیں رہتے. ان کی تحاریر فکر انگیز اور اثر انگیز ہوتی ہیں. ان کی کتابوں کا یہ سلسلہ محققین کے لیے آسانی اور معلومات کی فراوانی کا قابلِ ذکر ذریعہ ہے. مصنف کے اسلوبِ تحریر میں سلاست، روانی اور شستگی بدرجہ اتم موجود ہے. انھوں نے شاعروں اور ادیبوں کا تعارف لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ادبی کام پر بھی مدلل، مختصر اور جامع تبصرہ بھی کیا ہے. ساتھ ساتھ نمونے کے طور پر شعراء کرام اور مصنفین کی تخلیقات بھی شامل کر دی ہیں. ان کی کتابوں کا یہ سلسلہ بہت سے اردو ادب کے محققین کے لیے گراں قدر تحفہ ہے جس کی علمی اور تحقیقی افادیت خورشیدِ جہاں تاب کی مانند ہے. پروفیسر سید خورشید افروزؔ کے عملی اور ادبی کارناموں اور بلوچستان میں اردو ادب کو پروان چڑھانے میں ان کی کاوشوں اور خدمات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا. پروفیسرصاحب بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین کے وہ سپوت ہیں جن کی ساری زندگی ہی ادب کی راہوں میں بسر ہوئی ہے. ان کا یہ اعلٰی ترین محققانہ کام اردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ارمغانِ خاص ہے جس پر وہ بجا طور پر داد و تحسین کے حقدار ہیں. اس سلسلے کی آنے والی کتابوں میں جلد ہشتم، بلوچستان کے محققین اور افسانہ نگاروں کے تذکرے پر مشتمل ہوگی. جلد نہم میں بلوچی، پشتو اور براہوی شعراء کا ذکر ہوگا.