”بد صورت لوگوں کو بھی محبت جیسے جذبے کی چاہت ہوتی ہے مگر ان کا دل اس بات کو نہیں مانتا کہ وہ صرف اس وجہ سے محبت سے محروم کردیے جائیں…‘‘
پیرس کی پاسکل کی طرف سے پیار کے ساتھ
”پیار کا پہلا شہر‘‘ از مستنصر حسین تارڑ
مستنصر حسین تارڑ سے پہلا تعارف ”نکلے تیری تلاش میں‘‘ سے ہوا. سفروں سے پہلی محبت کو فروغ دینے والا یہ پہلا سفرنامہ، دنیا کے حسین شہروں میں سے حسین ترین شہر پیرس سے پہلی محبت، محبتوں کے علم بردار ایفل ٹاور، پہلو بہ پہلو شانزے لیزے و دریائے سین پہ پہلا پہلا کرش۔۔۔ ہرچیز پہلی بار تھی، پہلی پہلی بار محبت کی ہے، کچھ نا سمجھ میں آئے میں کیا کروں۔۔ کے مصداق۔۔۔
پیرس جسے خوشبوؤں اور رومانس کا شہر کہا جاتا ہے۔۔۔ وہاں شانزے لیزے کے چوڑے فٹ پاتھ پہ ریستوران تھے، مومارت کے قہوہ خانے اور قلاش مصور، بوئے ڈی بولون اور دریائے سین کا کنارہ اور اس پہ تیرتی ‘وی آنا’ کی موسیقی، برستی بارش میں نہاتا ایفل ٹاور۔۔۔ اور اور نیلی آنکھوں والی وینس کی دیوی پاسکل تھی اور اطالوی دیوتا سنان تھا اور محبت تھی اور ایک محبت کی لازوال داستان۔۔۔
اُسی سلامِ محبت کو، لاہور میں بحریہ ٹاؤن کے ایفل ٹاور کے قدموں میں پیش کرنے کو پہنچے تو اندھیرا چھا چکا تھا.
مجھے بے اختیار جیمس جوئیس (James Joyce) کی کہانی Araby یاد آ گئی جب کہانی کا مرکزی کردار اپنی مطلوبہ جگہ پہنچتا ہے تو اندھیرے اور مایوسیاں اسے گھیر لیتے ہیں۔۔۔ ہمیں بھی اندھیروں میں ڈوبا ایفل ٹاور دکھائی دیا۔۔۔ آخری لمحوں میں جب پاسکل ریلوے اسٹیشن پہ ڈھیر ہوتی ہے اور اس کا سرخ کوٹ بھی دھندلا کر تاریکی میں جذب ہوتا ہے، ویسے ہی ایفل ٹاور کرونا کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا، یہ محبت پہ وبا کے دنوں کا ایفل ٹاور تھا جو قربت کی بجائے دوری کا درس دیتا تھا۔۔۔ اور ہمیں ان مایوسیوں کی تاریکیوں سے نکل کر، لاہور کی روشنیوں کو چیرتے ہوئے واپس لوٹنا تھا.
ہمارے سفر کے اسباب تمام ہو چکے تھے۔۔۔ سو ہم تھکے ماندے قدم اور بوجھل دل لے کر لوٹ آئے۔۔۔