کتاب ”وجیہ کا جہاں‘‘ کی اشاعت – وردہ شاکر

کہتے ہیں جو کتاب آپ پڑھنا چاہتے ہیں، اگر وہ شیلف میں نہیں رکھی تو اسے خود لکھ ڈالیں…
جب میرے بیٹے معتصم الحق وجیہ نے دنیا کو نیا نیا دیکھنا اور سمجھنا شروع کیا تو میں نے سوچا کہ کوئی ایسی کتاب ہو جو اس کے آس پاس موجود چیزوں کی منطق سمجھنے میں اسے مدد دے۔ میں چاہتی تھی کہ قدرت سے اس کا تعلق مضبوط ہو اور ساتھ ہی اس سے بھی جو ہر شے پر قادر ہے۔ سائنس کو جس نظر سے میں نے دیکھا تھا، میں چاہتی تھی کہ میرا بیٹا بھی دیکھ سکے. میں اسے گھسے پٹے سلیبس کے کسی مضمون کی طرح سائنس نہیں پڑھانا چاہتی تھی سو میں نے ایسی مختصر کہانیاں لکھنے کا سوچا جس میں سائنس کو اللہ کی کتاب کے ساتھ حوالے سے سمجھایا جا سکے، کیوں کہ میں نے سائنس میں ماسٹرز کیا تھا اور کئی سال سائنس کی معلمہ رہی تھی تو اپنے تئیں سوچ لیا کہ مشکل نہ ہوگا، لیکن کتاب لکھنا اور ایسی کتاب لکھنا جسے بچے پڑھنا چاہیں، بہت مشکل کام ہے. میں نے ہمیشہ کی طرح مشکل کام کا انتخاب کیا۔

بسمہ خان

تب بھی بسمہ خان میری واحد ٹیم ممبر تھیں جو اب اس کتاب کی مدیرہ بھی ہیں، سے اپنے ہر خیال کی طرح اس اختراع کو بھی شئیر کیا۔ بسمہ نے حوصلہ افزائی کی اور میں ہر وقت اس کو شروع کرنے کے بارے میں سوچنے لگی۔ پہلے اسے مکالمے کی صورت لکھنا شروع کیا لیکن وہ پڑھنے والوں کے لیے مشکل اور غیر دلچسپ لگا۔
بکھرے ہوئے سے خیالات کیسے قرطاس پر کہانی بن کر ابھرے، یہ اللہ کی مدد سے ہی ممکن تھا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ اس کو ”وجیہ کا جہاں‘‘ کے نام سے شروع کیا جائے اور معتصم الحق وجیہ کی تصویر کو ہی السٹریٹ کیا جائے۔

معتصم الحق وجیہ

ایک طرف کتاب کے متن میں بہتری لانے کی تگ و دو جاری تھی تو دوسری جانب اس کی ڈیزائننگ کی کوششیں۔ اس ضمن میں کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ کچھ نے حامی تو ضرور بھری لیکن وقت پر کام مکمل نہ کیا۔ بہت افسوس ہوا کہ یہ لوگ پیسہ کمانا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے محنت نہیں کرتے۔ مجھے کام ہمیشہ فوراً کرنا ہوتا ہے، اس لیے ذہن سرگرداں رہتا ہے۔ کراچی سے مایوس ہو کر راولپنڈی کے ایک فری لانسر سید فہیم شاہ سے رابطہ کیا لیکن وہ بھی بین الاقوامی پراجیکٹس میں مصروف رہتے تھے، تو ان سے خصوصی گزارش کر کے یہ تصاویر بنوائی گئیں۔
پھر ہم نے اپنے تربیتی ادارے ”ہائی فلائرز‘‘ کی جانب سے ہونے والے اساتذہ کے ایوارڈز ”نشان پرواز‘‘ کی تقریب میں اس کو لانچ کیا یا یوں کہہ لیں اپنے آئیڈیا کو متعارف کروایا۔ اس تقریب میں قومی ادارہ ”نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘ کے ریجنل ہیڈ جناب حسن سعید مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے۔

اعتصام الحق ثاقب

اس لانچنگ کے لیے ہم نے ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر اور ارطغرل غازی کے وائس اوور آرٹسٹ اعتصام الحق ثاقب سے ”وجیہ کی دنیا‘‘ کا جِنگل لکھوایا اور انہی کے توسط سے ایک چائلڈ آرٹسٹ رویدہ رباط نے اسے ریکارڈ کیا کیوں کہ معتصم اس وقت چھوٹا تھا اور بولنا نہیں جانتا تھا۔ اس جِنگل کو بچوں نے بہت پسند کیا اور ہم بہرحال ایک تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

2022ء میں ایک آن لائن لائبریری ”دا بک شیلف‘‘ نے پاکستانی مصنفین کی حوصلہ افزائی کے لیے بک بازار لگانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اور بسمہ نے کام بہت تیز کردیا کیوں کہ ہم بک بازار میں ان کتب کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ کہانی لکھی، زبان کی تصحیح کے لیے پہلے اعتصام الحق ثاقب کو مسودہ دکھایا۔

طاہرہ ناصر

اصلاح کے بعد اردو کی بہترین معلمہ، مصنفہ اور ماہر تعلیم طاہرہ ناصر کا رخ کیا۔ انہوں نے ہر طرح سے اس کی نوک پلک سنواری۔ مجھے سمجھایا کہ کہانی کیسے بہتر ہوسکتی ہے. یہاں تک کہ الفاظ کے چناؤ میں بھی بچوں کے ذخیرہ الفاظ کو مدِ نظر رکھنا سکھایا۔ جب یہ مسودہ تیار ہوا تو ہم نے مختلف عمروں کے بچوں کو پڑھایا اور دیکھا کہ بچے کہاں دشواری محسوس کر رہے ہیں، کیا نیا سیکھ رہے ہیں، اور کتنی دلچسپی لے رہے ہیں۔
پھر موقع آیا ان کہانیوں کو کتابی شکل دینے کا۔ ہر اک صفحہ رنگین تصویروں سے مزین کرنا تھا اور ڈیزائنر کو دینے کے لیے پیسے تھے نہ وقت، کیوں کہ معتصم کی السٹریشن کے وقت بھی ہم یہ تجربہ کر چکے تھے کہ لوگ وقت پر کام کر کے نہیں دیتے۔ سو یہ ذمہ داری بھی میں نے خود اٹھائی. 2010ء میں سیکھا جانے والا ایڈوبی فوٹوشاپ اور السٹریٹر ایک بار پھر انسٹال کیا اور معتصم کے سو جانے کے بعد، رات رات بھر جاگ کر ایک ایک کتابچہ ڈیزائن کیا۔۔۔ پھر آیا اسے چھپوانے کا مرحلہ۔ وقت تو کم تھا ہی، رقم اس سے بھی کم تھی. کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ بسمہ خان روز صبح اٹھ کر چھپائی کے مراکز پر جاتیں اور شام میں ہم دونوں حساب کتاب کرتے کہ کیا اور کیسے کیا جائے؟ ہم صرف چند کاپیاں بنوانا چاہتے تھے تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں. ہم نے لوگوں سے فنڈ کی درخواست کی اور سب ہی دوستوں نے محبت اور اعتماد کی حد کر دی۔ کسی نے پانچ سو کسی نے پانچ ہزار دیے اور حوصلہ بڑھتا گیا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ کچھ پیسے اکٹھے کر کے اور کچھ اپنی جمع پونجی لگا کر ہم چند سیٹ بنوا سکتے ہیں جو بک بازار میں رونما کیے جا سکتے ہیں۔ اعتصام الحق صاحب نے بھی پیشکش کی کہ وہ مالی تعاون کے لیے حاضر ہیں۔
انہی دنوں جب ایک روز بسمہ خان پرنٹر کے پاس پیپر، کلر اور بائنڈنگ کے لیے اپنی جان مار رہی تھیں تو میں ضیاء الدین ہسپتال میں ڈاکٹرنی کا انتظار کررہی تھی اور ساتھ ہی وائس نوٹ پر بسمہ سے تفصیلات لے رہی تھی۔ میرے پاس بیٹھی خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ چل رہا ہے؟ میں نے انہیں کچھ تفصیل بتائی اور موبائل میں کتاب کی پی ڈی ایف فائل دکھائی۔ وہ نہ صرف بہت خوش ہوئیں اور حوصلہ افزائی کی بلکہ کتاب کے لیے خاطر خواہ رقم بھی میرے حوالے کر دی۔ یہ میری خوشی کی انتہا تھی کیوں کہ جو لوگ مجھے اور میرے کام کو نہیں جانتے تھے وہ بھی “وجیہ کی دنیا” کو پسند کر رہے تھے. کتاب چھپنے کا عمل شروع ہوگیا تھا اور تین دن بعد کتابیں ملنا تھیں۔ ہر وقت یہی کوشش تھی کہ بقایا رقم بھی جلد جمع ہو سکے۔ ایک رات گیارہ بجے میں معتصم کو سلا رہی تھی کہ موبائل پر میسج آیا… مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کیوں کہ میرے اکاؤنٹ میں ایک ساتھ ہی اتنی خطیر رقم آ گئی کہ میں پرنٹر کے بل کی فکر سے آزاد ہوگئی تھی. یہ اللہ کے نیک بندے بھی نا! ان کے لیے اجر سے بڑی کوئی لالچ نہیں. اللہ ایسے تمام لوگوں کو آباد رکھے، آمین
جس روز بسمہ وہ سب کتابیں لے کر گھر آئیں، ہم سب کی خوشی کی کوئی حد نہ تھی. بک بازار میں شاید تین یا چار دن رہ گئے تھے۔ بُک بازار بہترین رہا۔ کئی افراد کو یہ کتابیں تحفتاً دیں۔ پھر ایک این جی او ”توصیف میموریل سکول‘‘ کے بچوں کے ساتھ اس پر سیشن کیا۔ منیر راہل کراچی کے ایک زبردست فوٹوگرافر ہیں، انہوں نے اس سیشن کی بہترین ویڈیوز شیئر کیں. ان کی حوصلہ افزائی بھی ہمیشہ یاد رہی. بعد میں کراچی بین الاقوامی کتاب میلہ میں ”وجیہ کا جہاں‘‘ نے بچوں کی توجہ حاصل کی۔ وہیں چلڈرن پبلکیشنز نے اسے چھاپنے میں دلچسپی ظاہر کی لیکن معاملہ بن نہ سکا اور میں عوامی جمہوریہ چین چلی آئی۔
کچھ عرصے بعد وزارت تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت برائے حکومت پاکستان کے قومی اشاعتی ادارے ”نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘ کی جانب سے کتاب کے اشاعت کے سلسلہ پیغام وصول ہوا. چوں کہ انہوں نے بھی اس کا مسودہ کراچی بین الاقوامی کتاب میلہ میں دیکھا تھا تو انہوں نے اس کو چھاپنے کی پیشکش کی لیکن اس کے کئی مراحل تھے اور میں اب ملکِ چین میں ہی رہ رہی تھی، تب بسمہ نے ہی کتابیں اسلام آباد میں ان کے ہیڈ آفس ارسال کیں اور پھر باقی تمام مراحل طے ہوتے ہوتے کئی ماہ لگ گئے۔ اب میرا یہ چھوٹا سا خواب نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے ”وجیہ کا جہاں‘‘ کے نام سے شائع ہو کر پاکستان بھر میں دستیاب ہے۔

آغاز میں اس کتاب کے عنوانات میں ”وجیہ کا آسمان‘‘ ”زمین‘‘ اور ”سمندر‘‘ تھے لیکن نیشنل بک فاؤنڈیشن کے بورڈ کی تجویز پر اس میں آب وہوا اور خوارک کا بھی اضافہ کیا گیا۔ بڑے سے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں، بہت سی ذمہ داریوں کو نبھانے کے بیچ میں دیکھا گیا ایک ماں اور ایک معلمہ کا خواب آج کتاب کی شکل میں نہ صرف پورے پاکستان میں دستیاب ہے بلکہ یہ کتاب چین کی لائبریری میں بھی موجود ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ علم کے نام پر ایک دیا جلایا جاتا اور اس کی روشنی صرف کمرے تک ہی محدود رہتی۔ اس روشنی نے تو اجالا بکھیرنا ہی تھا۔ اس کامیابی پر میں ان تمام لوگوں کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کو مرتب کرنے اور اس کا پہلا نمونہ پیش کرنے کے لیے میری ہر ممکن مدد کی۔
سب سے زیادہ شکریہ جناب اعتصام الحق ثاقب کا، جنہوں نے پہلے ہی دن سے اس خیال کو کتاب بنانے کے لیے رہنمائی کی اور ہر مرحلے پر اپنی فنی و تکنیکی صلاحیتوں سے مستفید کیا. طاہرہ ناصر کی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اپنی علمیت اور محبت سے اس کتاب کا متن نکھارا۔ بسمہ خان جنہوں نے مدیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ دن رات ان تھک محنت کر کے اس کتاب کا پہلا نمونہ بنوایا اور ہر قدم میرے ساتھ رہیں، بسمہ آپ کا بھی بہت شکریہ.
ان تمام احباب کا بھی جنہوں نے ہمیشہ مجھ پر بھروسہ کیا اور اپنی محبتوں سے مجھے اس مقام تک پہنچایا۔ ان میں ایمانا وسیم، رمشاء سہیل، حنا وہاب، شمع سلیم اور منیر راہل کی حوصلہ افزائی ناقابل فراموش ہے۔ میری تمام تر دعائیں اور شکرگزاری نیشنل بک فاؤنڈیشن سے وابستہ حسن سعید صاحب کے لیے، جنہوں نے میری کوششوں کو اس لائق جانا اور ”وجیہ کا جہاں‘‘ کو ملک کے ہر بچے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ بے شک آپ سب احباب کے بغیر یہ ہر گز ممکن نہ تھا۔ مجھے امید ہے کہ جو کچھ سوچ کر میں نے یہ کتاب لکھی، ہر بچہ اس سے وہی سب کچھ سیکھ سکے اور سائنس کا دوست بن سکے۔ قدرت کو بہتر طور پر سمجھ سکے، اندھی تقلید کے بجائے فکر کرنے والا مسلمان بنے۔
یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے ذریعے آن لائن بھی آرڈر کی جاسکتی ہے.


مصنفہ اور ماہرِ تعلیم، وردہ شاکر کا تعلق کراچی سے ہے. آپ نے جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی سے لائف سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، علاوہ ازیں کراچی انسٹیٹیوٹ (PAF-KIET) سے ہیومن ریسورس مینجمنٹ اور ایجوکیشنل لیڈر شپ میں ایم بی اے کیا. مزید برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی، لندن سے پی جی سی ای انٹرنیشنل کی ڈگری حاصل کی. وردہ شاکر نے بطور لیکچرر، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز جناح یونیورسٹی برائے خواتین، کراچی سے ہی کیا. وہ گذشتہ دس سال سے تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور اسی سلسلہ میں انہوں نے ایک ادارہ ”ہائی فلائرز میگنیٹ‘‘ کی بنیاد رکھی. اس ادارے کے تحت کئی والدین، اساتذہ کرام اور طلبہ معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر رہے ہیں. والدین بچوں اور اساتذہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی تحریر کردہ مختلف کتابیں ”ایمازون‘‘ کے ذریعے دنیا بھر میں دستیاب ہیں. آپ ایک عالمی ماہرِ تعلیم کے طور پر عوامی جمہوریہ چین کے ایک بین الاقوامی سکول میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں. ”آئی ایم وردہ شاکر‘‘ کے عنوان سے مصنفہ کا فیس بک پیج اور ”ہائی فلائرز میگنیٹ‘‘ کا فیس بک پیج بھی موجود ہے. ”انسٹاگرام‘‘ اور ”لِنکڈ اِن‘‘ پروردہ شاکر کی پروفائل ملاحظہ کی جا سکتی ہے.


اسلام آباد: نیشنل بُک فاؤنڈیشن کے مرکزی دفاتر میں سیلز انچارج قمر سعید، ایڈیٹر ”کتاب نامہ‘‘ ثاقب محمود بٹ کو محترمہ وردہ شاکر کی کتاب ”وجیہ کا جہاں‘‘ پیش کرتے ہوئے.