• مہناز رحمٰن اور شمع زیدی کے ساتھ منائی گئی شام کا احوال، یہ ایک دو دن کی بات نہیں کئی دہائیوں کا قصہ نامختتم ہے.
یاد ایک ایسا پرسکون اور طوفانی، شفاف اور گدلا سمندر ہے جس کی تہہ میں ان گنت شکستہ جہازوں جگمگاتے خزانوں اور لاشوں کے شہر خموشاں دفن ہیں۔ یادوں کے ان زیرِ آب بلوریں محلات میں سمندری پھول تیرتے پھرتے ہیں۔ سبز اور نیلی موجوں کے عکس ان ایوانوں میں لہریں مارتے ہیں اور زمرد کی روشنی میں مونگے کی چٹانوں کے پیچھے چھپی جل پریوں کی آوازیں اس سیال ابدی سناٹے میں مدھم مدھم گونجتی ہیں۔ یا دوں کے دیپ گھپ اندھیرے میں یکایک جلتے بھجتے ہیں، کسی ایک منظر کے بھیتر رک جانے کے لیے۔ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا تو ہوگا۔ انسانوں کا ماضی مشترکہ ہے مستقبل کے بارے میں کچھ پتا نہیں کبھی سوچا ہے کہ ماضی نہ ہوتا یا کم سے کم حضرت انسان کو یاد ہی نہ رہتا تو کیا ہوتا؟ بہت ہی ہیبت ناک تصور ہے، لرزہ سا طاری ہوجاتا ہے اور بچپن سے زیادہ دلفریب اور دلنشیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ ایک لمحہ ہی تو تھا جب ایک سوسال کے انسان نے آخری فرمائش کرتے ہوئے کہا: مجھے اپنے بچپن کے دوستوں سے ملنا ہے۔ کیا تم ملا سکتے ہو؟ خادم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
کس قدر قیمتی ہوتی ہیں یادیں اور ان میں بسے موسم اور ان موسموں کی خوشبو سارا وجود ان کی مہکار سے مہکنے لگتا ہے اور باقی سب اس میں گم ہوجاتا ہے۔ سنہری شام کے تصور کو آنکھوں میں سجائے جب کچھ ایسے ہی خیالات کے حامل بچوں نے (جو اب بڑھاپے کی سرحدوں پر بیٹھے انھی گزرے موسموں کا انتظار کرتے ہیں) ایک محفل سجانے کا اہتمام کیا تو آگ برساتے سورج نے دھاڑتے ہوئے ان کا راستا روکنے کی پہلی کوشش کی۔
پچیس مئی کا دن اوپر سے موسموں کی دہلا دینے والی پیش گوئیاں پچاس سینٹی گریڈ تک میں بلبلاتے ہوئے انسانوں کے ہیولے کس قدر جاں گسل ہوسکتا تھا۔ پتا ہے کیا ہوتا ہے جب انسانوں کے اندر یادوں کے دیپ جلتے ہیں اور خوب صورتی ان ساری بدصورتیوں سے نبرد آزما ہونے کو تیار ہوجاتی ہے۔ جی یادوں کی بارات کی راہ میں کھڑی دانت نکوستی ہر رکاوٹ ڈھیر ہوجاتی ہے اور زمین پر اترتی ہے وہ سرمئی شام جس کے تصور میں ایسے انہونے اور ان دیکھے خوابوں کا میلہ چراغاں سجتاہے جیسا اس دن کشمیر روڈ پر واقع سٹی کلب کے ہال میں برپا ہوا۔ اسے ممکن بنایا اعظم عظیم اعظم، مصطفیٰ ہاشمی، علی حسن ساجد نے۔ ان کی مدد کی رﺅف اسلم آرائیں، سمیر یاسین، کاشی چوہان اور فرخ اظہار نے۔
یہ محفل کوئی عام سی تقریب نہیں ہے اس میں ماضی کی دوبہت ہی پیاری اور مشترکہ یادوں کی لہروں پر سوار مہناز رحمٰن اور شمع زیدی موجود ہیں، جانتے تو سب ہیں کہ وہ اسی کی دہائی میں امن اور حریت اخباروں میں بچوں کے صفحات کی انچارج ایڈیٹرتھیں. ان کی شفقت اور ناقابل بیان توجہ و راہنمائی نے ان گنت خام ادیبوں کو پکے اور سچے ادیبوں کی صورت سنوارا اور تعمیر کیا یہ صنّاعی آج پورے منظرمیں نمایاں ہے اور قابل فخر بھی ہے۔ مہناز رحمٰن اور شمع زیدی کے تراشے ہوئے ہیرے جیسے لکھاریوں نے ایک شام ان کے ساتھ منانے کا ارادہ کیا اور بجھی ہوئی یادوں کے انگنت چراغ فروزاں ہوگئے۔
اس بے پناہ شاندار پروگرام کا خیال پیش کیا اعظم عظیم اعظم نے اور مقدور بھر اپنی غنی اور فیاض طبیعت سے ان سارے مرحلوں کو سر کرنے میں تعاون اور مدد فراہم کی جو رنگوں اور روشنیوں اور روح کو کشید کرنے کا سامان ہوا کرتے ہیں۔ خیال کو عملی شکل سے ہمکنارکیا مصطفٰی ہاشمی اور علی حسن ساجد نے اپنے جملہ معاونین کے ساتھ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایسی تقریب کی ماضی قریب میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
علی حسن ساجد نے نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے تلاوت کلام پاک کے لیے اعظم عظیم اعظم کو دعوت دی۔ مہمانوں کے قافلے وقت مقررہ پر ہال میں براجمان ہو چکے تھے مہمانان خصوصی مہناز رحمٰن اور شمع زیدی تو مقررہ وقت سے بھی کچھ ساعت پہلے ہی جلوہ نما تھیں۔ یہ ان جذبوں کا اظہار ہے جن کی ہر جنبش کہہ رہی تھی کہ ہمیں ان یادوں کے دیاروں میں ان پرستانوں میں اور ان یادوں کی گزرگاہوں پرچہل قدمی کرنا ہے جہاں کبھی ایک دنیا آباد تھی۔جہاں حال مستقبل کی تاریخ لکھ رہا تھا اور مستقبل مدھم اور ہولے سے ماضی بن رہا تھا۔ آج انھی زمانوں کے رتھ پر بیٹھے وہ سب چہرے وہ سارے اجسام وہ سارے تخلیقی ہنر مند اس ایک چھت کے نیچے جمع تھے۔ تلاوت کلام پاک کے بعد نعت پیش کی گئی۔ جو ہما ناز نے ایسی غضب کی خوش الحانی سے پیش کی سماں باندھ دیا اور استقبالی کلمات کے لیے راقم سے کہا گیا، اورپھر سلسلہ چل نکلا پھولوں کی بارش اور تحائف پیش کرنے کا دسیوں کے حساب سے خوب صورت بُکے دونوں مہمان خواتین کو پیش کئے، اعظم عظیم اعظم، رؤف اسلم آرائیں، مصطفیٰ ہاشمی ، علی حسن ساجد نے اور راقم نے۔ ( کتنا بوسیدہ لفظ ہے یہ” راقم“ باکل میری ہی طرح).
اعظم عظیم اعظم نے دونوں باجیوں کو بیش قیمت تحائف بھی پیش کیے. ان ساون کی بارش کی بوندوں جیسے لمحوں کے بعد اظہار خیال کا مرحلہ شروع ہوا اور سب سے پہلے دعوت خیال دی گئی محبوب الہٰی مخمور کو۔ بچوں کے ادب میں محبوب کی خدمات ناقابل بیان اور توصیف کی چٹانوں پر براجمان ہیں۔ محبوب نے دونوں خواتین کے ساتھ اپنے تجربات کی ایک پوری داستانِ دلآویز گوش گزار کی پہلے سے بجتی تالیوں میں اور کھنک پیدا ہوئی اور ان کے بعد بلایا گیا۔ جاوید الرحمان خان( المعروف ابن شہباز خان) الطاف پاریکھ۔ اورصالحہ صدیقی، کاشی چوہان،جمال صدیقی،شاہنواز اعظم،رؤف اسلم آرائیں، محمد شاہ نواز اعظم،اقبال سہوانی ،زہرہ قاضی ان سب ادیبوں نے ایسے دلفریب واقعات ومنظرحاضرین کے نذر سماعت کئے کہ حرف اور کہانی اور حقیقت اور دھڑکن سب ایک ہوگئے۔رفیق زاہد گوادر سے شرکت کے متمنی تھے مگر شہر میں ہونے والی ہڑتال نے انھیں آنے نہ دیا۔ رفیق اسی کی دہائی سے بچوں کے رسائل میں لکھ رہے ہیں اور قابل ذکر افسانہ نگار بھی ہیں ۔۔۔
پھر دعوت خطاب دی گئی آج کے عہد میں بھی بچوں کے سب سے مقبول اور کامیاب ادیب کاوش صدیقی کو۔ کاوش نے حسب توقع بڑی متوازن اور نگینوں جیسی باتیں کیں ان کی باتوں ، یادوں کے بیاں نے جیسے سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد مصطفیٰ ہاشمی نے تو جیسے میلا لوٹ لیا۔ حاضرین نے سب سے زیادہ داد مصطفیٰ کو ہی دی تالیاں اور قہقہے دیر تک گونجا کئے۔ قبل ازیں اعظم عظیم اور علی حسن ساجد کی باتیں بھی ایسی ہی منظردر منظر تاج محل میں رکھے بولتے پتھروں جیسی تھیں۔۔صاحب تحریر کی باری بھی آئی اور اس کے بعد شہناز احد ان کے ساتھ بھی ماضی کے درخشاں ایام کا ایک پورا قافلہ رواں دواں ہوا۔ وہ ٹوٹ بٹوٹ کی پہلی ایڈیٹر تھیں اور ہم میں سے کئیوں نے ان کی ادارت میں بھی لکھا۔ جانے کتنی کہانیاں اور مضامین اور جو کچھ بھی وہ چھاپ سکتی تھیں ایسا سب کچھ۔ شہناز احد ( باجی) مہناز رحمٰن سے اپنی چالیس سال پرانی دوستی کے قصوں میں بے حد نپی تلی باتیں جو ایسی لائق توجہ رہیں کہ انھیں سن کے حاضرین کے دل شاد ہوئے۔ اور وقت ہوا پہلی مہمان خصوصی شمع زیدی صاحبہ کے ڈائس پر آنے اور کلام کرنے کا۔ کھنکھناتی قہقہ برساتی شمع زیدی نے اتنی مختصر گفتگو کی کہ تشنگی دشت کی اتھاہ تک قائم ہوگئی۔ وہ اس بات کو لے کر بہت خوش ہوئیں کہ ان کی زندگی میں ان کے کئے گئے کاموں کااعتراف اور وہ بھی اتنے پر خلوص انداز میں یہ ان کے لئے تادیر قائم رہنے والی خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔ مہناز باجی نے بھی ان سنہرے دنوں کی یادوں کی روشنی کو ماضی کے گزرے ہوئے دنوں سے کشید کرکے جیسے خوشبو کی طرح حال کی فضاﺅں میں بکھیر دیا۔ مہناز باجی کا استقبال دیر تک گونجتی تالیوں میں حاضرین نے کھڑے ہوکر کیا۔ جو ان کے مقام اعتبار کے شایان شان بھی تھا۔
لذت کام ودہن میں جو اہتمام منتظمین نے کررکھا تھا اس کی تعریفوں کے نقارے شرکائے محفل میں اب تک گونج رہے ہیں۔ ویسے بھی ذائقے کی بات دور تک جانے کی روایت موجود ہے۔
اختتامی کلمات علی حسن ساجد نے جاذب انداز و لہجے میں ادا کئے ان کی کمپیئرنگ تو یوں بھی مدت سے لائق توجہ اور توصیف رہی ہے۔تقریب ختم ہوگئی لیکن شرکاءجانے پر آمادہ نہیں تھے لہٰذا دیر تک باہمی دلچسپیوں کی کہانیاں فضاﺅں میں تنی ہوئی طنابوں کے بل پر محو پرواز رہیں۔
اور سمندر سنسناتا رہتاہے اس سے مفر نہیں تاوقتکہ آپ دوسروں کے لئے ایک یاد بن کے اس کی تہہ سے جانہ لگیں یادوں کی بارش میں نہائے ہوئے لمحوں میں خوبصورتی کی کتنی سہانی کہی ان کہی داستانیں پوشیدہ تھیں۔ جان پاتے آپ بھی جو اگر موجود ہوتے وہاں جہاں زندگی محو خرام ہے۔ اس خوب صورت تقریب کے شرکائے میں شاہین ملک، کاشی چوہان، سمیر یاسین، کاوش صدیقی، خواجہ وقار احمد، کاشف غائر، نشید آفاقی (قابل ذکر بچوں کے ادیب اور مایہ ناز صحافی) صالحہ صدیقی، رفیع اللہ میاں، نفیس احمد خان، یار محمد خان، تابش انجم، سعید سعیدی، الطاف قادری پاریکھ، عظمیٰ کمال، شاہدہ عروج، صدف اظہار، حرا شبیر، اریبہ یاور، رشنا، فرخ اظہار، ماہ رخ، عدنان، عدیل، شبیر غوری، عائشہ، زہرا، فیصل شوری، کوثر حفیظ، فرح اور جعفر فون پوری شامل تھے.
رپورٹ: حنیف سحر
بہت خوب۔ بہت شکریہ
محبوب بھائی آپ کا بھی بہت شکریہ