محمد آصف رفیق کی دلچسپ آپ بیتی ”سہالہ یاترا‘‘ – محمد اکبر خان اکبر

ہماری آج کی منتخب کتاب کا نام ہے ”سہالہ یاترا‘‘، جس کے مصنف محمد آصف رفیق ہیں. آپ نے فیصل آباد کے گاؤں میں آنکھ کھولی. سرکاری درس گاہ سے پرائمری اور میڑک تک تعلیم حاصل کی. مزید تعلیم کے شوق میں لاہور جا پہنچے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ایس سی کی ڈگری مکمل کی. محمد آصف رفیق کے ادبی سفر کا آغاز بھی کالج میں ہی ہوا اور مضمون نویسی کے مقابلوں میں کامیابیاں سمیٹیں.
وہ ان تین سو خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے 1998ء میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت منعقدہ پولیس انسپکٹر کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور سات سال تک محکمہ پولیس میں خدمات سرانجام دیتے رہے. وہ اپنی تصنیف کے بارے میں خود تحریر کرتے ہیں کہ:
”کتاب میں پولیس انسپکٹرز کی پولیس کالج سہالہ میں تربیت کی کہانی، عوامل اور نوجوانوں کے احساسات قلم بند کیے ہیں. یہ کتاب کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کے پولیس آفیسر میں ڈھلنے کی روداد ہے جو میری نظر میں تب کے ماحول میں ایک پاکیزہ سفر تھا.‘‘
مصنف کی یہ آپ بیتی نہایت دلچسپ اور قدرے مزاحیہ اسلوب کی حامل ہے. ان کی کتاب کے عنوانات دیکھ کر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے جالب اور ہلکے پھلکے مزاح سے بھرپور جاندار تحریر رقم کی ہے. آپ کی کتاب کے چند عنوانات ملاحظہ کیجئے:

• ‏پہلی نا انصافی
• ‏سرعام برہنگی
• ‏مابدولت کی آمد اور افسر کے تیور
• ‏تیرگی میری وردی کی
• ‏گھاس خوروں سے گوشت خوروں تک
• ‏لُوٹنا ہے تو بینک کو لُوٹو

محمد آصف رفیق کا طرزِ تحریر رواں، سادہ اور تکلفات سے پاک ہے. وہ اپنی نثر میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرنے کے فن میں ماہر ہیں. اس کے لیے انہیں کسی قسم کے مشکل الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی. یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی ایک بھی مقام پر بوجھل پن کا شائبہ نہیں ہوتا. ان کی کتاب میں ان شہداء کے خاکے بھی ہیں جو اپنے فرائض کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے. مصنف کے تحریر کردہ خاکے جذبات سے بھرپور ہیں اور جذبہ خدمت ابھارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں. کتاب کے آخر میں بہت سی تصاویر شامل کر کے اس کی قدر و قیمت اور دل آویزی میں اضافہ کیا گیا ہے.
ان کی تحریر مزاح آمیز ہے جو ان کی فن تحریر میں فنی پختگی کا پتا دیتی ہے. ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں:
”ہماری تربت گاہ میں کوت میں پائی جانے والی رائفلز جو پریڈ کے لیے استعمال کی جاتی تھیں، زمانہ قدیم سے بھی قدیم تھیں. شاید ہی کبھی ان کا ٹرائگر دبایا گیا ہو. جنگ عظیم اول اور دوم کی یہ بندوقیں اب اپنا فطری عمل کرنے سے قاصر تھیں. ایسی ہی بندوقیں ہم نے پانچویں جماعت کے وقت شاہی قلعہ لاہور کے عجائب گھر میں دیکھی تھیں.‘‘
کس قدر لطیف پیرائے میں انہوں نے پولیس فورس کی ایک اہم خامی کا تذکرہ کیا ہے کہ پڑھنے والا منفی تاثر لے ہی نہیں سکتا.
محمد آصف رفیق نے اپنی اس آپ بیتی میں ہمارے نظام پولیس کی چند دیگر خامیوں کا بھی ذکر کیا ہے. مغربی اقوام کی پولیس سے موازنہ کر کے انہوں نے ارباب اختیار کے ضمیر جھنجھوڑنے کی ایک شعوری کوشش کی ہے. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا دل حب الوطنی کے جذبات سے لبریز ہے اور وہ اپنے وطن کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں. درحقیقت محکمہ پولیس کو آصف رفیق جیسے فرض شناس، دلیر، حب الوطن اور بے لوث آفیسرز کی ضرورت ہے.
آصف رفیق صاحب نے نجانے کن وجوہات کی بنا پر پولیس چھوڑ دی مگر مجھے یقین ہے کہ وہ جہاں بھی رہیں گے اپنے فرائض پوری دیانت داری، رواداری اور بے لوث خدمت خلق کے جذبے کے تحت ادا کر رہے ہوں گے. پولیس کی طرح دیگر محکمہ جات میں بھی ایسی خوبیوں والے اعلٰی اہلکاروں کی شدید کمی ہے.

264 صفحات پر مشتمل محمد آصف رفیق کی کتاب ”سہالہ یاترا‘‘ اُردو کے نثری ادب میں ایک اہم اضافہ ہے. امید کی جانی چاہیے کہ ان کے قلم سے روشنی کی مزید کرنیں پھوٹ کر اس عالم ظلماتِ کو منور کرتی رہیں گی.
الف کتاب پبلیکیشنز، لاہور کے زیرِ اہتمام اس کتاب کی قیمت 850 روپے ہے.


اس کتاب بارے مصنف ”محمد آصف رفیق‘‘ کا ویڈیو انٹرویو ملاحظہ کیجیے:

اپنا تبصرہ بھیجیں